
پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے پرصرف ایک سال کے اندر تورکہو روڈ پر مشینری پہنچی اور کام میں نمایاں تیزی آئی۔وقاص احمد ایڈوکیٹ
میری عدالتِ عالیہ سے درخواست ہے کہ میرے دائر کردہ مقدمات کو پشاور منتقل نہ کیا جائے،
یہ کہنا کہ عدالتوں سے عوام کو انصاف نہیں مل رہا — بالکل غلط بات ہے۔
البتہ سیاسی مقدمات میں اگر سیاستدانوں کو انصاف نہیں مل رہا تو وہ ایک الگ معاملہ ہے۔
عدالتوں میں عام عوام کے مقدمات میں انصاف ضرور مل رہا ہے۔
اس کی ایک واضح مثال تورکہو روڈ ہے۔
وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کو ایک ارب روپے سے زائد فنڈز ادا کیے، مگر اس کے باوجود 20 فیصد کام بھی مکمل نہیں ہوا تھا۔
جب ہم نے پشاور ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو صرف ایک سال کے اندر تورکہو روڈ پر مشینری پہنچی اور کام میں نمایاں تیزی آئی۔
آج بھی پشاور ہائی کورٹ کے سخت احکامات کی بدولت تورکہو روڈ پر رائین گولا توری کے مقام تک کمپیکشن کا کام جاری ہے۔
اسی دوران عوامی احتجاج کو دبانے کے لیے اہالیانِ تورکہو تریچ یوسی پر تین جھوٹی ایف آئی آرز درج کی گئیں، جن میں دہشتگردی کے الزامات بھی شامل تھے۔
تاہم، پشاور ہائی کورٹ نے ان ایف آئی آرز کو معطل کرتے ہوئے عوام کو گرفتاریوں سے محفوظ رکھا۔
اگر عدالت مداخلت نہ کرتی تو آج تورکہو تریچ یوسی کے درجنوں عوام ڈی آئی خان یا تیمرگرہ جیلوں میں قید ہوتے۔
عدالتِ عالیہ کے چیف سیکرٹری کو طلب کرنے اور سخت احکامات کی وجہ سے تورکہو روڈ پر وہ کام ہوا جو 16 سالوں میں ممکن نہ ہو سکا۔
اس سے پہلے اس منصوبے پر کروڑوں روپے کے فنڈز خرچ دکھائے گئے مگر زمین پر کچھ نہیں تھا۔
اب عدالت کے حکم کے بعد ترقی کا عمل واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔
مزید برآں، عدالت نے یکم اکتوبر کو حکم دیا ہے کہ تورکہو روڈ 31 اکتوبر تک مکمل کیا جائے،
بصورتِ دیگر سیکرٹری سی اینڈ ڈبلیو سے لے کر ایس ڈی او تک سب کو جیل جانا پڑے گا۔
یہ بات پشاور ہائی کورٹ نے واضح الفاظ میں کہی ہے۔
یہی نہیں، عدالت کے حکم پر چترال شندور روڈ، کلاش ویلی روڈ، لواری اپروچ روڈ اور گرم چشمہ-دوراہ پاس روڈ بھی مکمل کیے جائیں گے۔
مزید یہ کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان اور چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے خود چترال آکر ان سڑکوں کا نوٹس بھی لیا ہے۔
میں چترال کے عوام سے گزارش کرتا ہوں کہ عوامی نوعیت کے مقدمات میں عدالتوں پر بھرپور اعتماد رکھیں۔
سیاسی نوعیت کے مقدمات الگ نوعیت کے ہوتے ہیں۔
میں خود ایک چترالی شہری اور سائل ہونے کے ناتے یہ بات ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ
یہ سیاسی مقدمات کا سلسلہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے جاری ہے۔
آخر میں، چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے سڑکوں سے متعلق تمام مقدمات کو پشاور (پرنسپل سیٹ) پر یکجا کرنے کا حکم دیا ہے۔
میری عدالتِ عالیہ سے درخواست ہے کہ میرے دائر کردہ مقدمات کو پشاور منتقل نہ کیا جائے،
کیونکہ یہ مقدمات آخری مرحلے میں ہیں، اور سوات بنچ میں موجود معزز ججز صاحبان پر میرا مکمل اعتماد ہے۔
اگر یہ مقدمات پشاور منتقل ہوئے تو ان میں غیر ضروری تاخیر (التوا) پیدا ہو جائے گی۔
تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں
اور چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کو بھی ٹیگ (منشن) کریں۔
