پاکستانی جمہوریت اور معصوم اسماعیل ؑ اور ایلان کرد کی قربانی
۔۔۔۔۔۔۔سرور کمال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان آزادی سے لیکر آج تک مختلف بحرانوں میں مبتلا رہا ہے ۔ہر طرف صوبائیت ، علاقائیت ، تنگ دستی ، بھوک و افلاس ، ناقص صحت کی سہولیات ، اعلی معیاری تعلیم کی عدم فراہمی ، فرقہ وارانہ اور مذہبی دہشتگردی کا راج ہے ۔جمہوری نظام میں سب سے زیادہ توجہ انصاف کے نظام پر دی جاتی ہے ۔ ہمارا انصاف کا نظام انتہائی ناقص ہے ۔ یہ نظام اشرافیہ ، طاقتور اورظالم کے لئے انتہائی سازگار ہے۔ غریب کو جب انصاف ملتا بھی ہے تو وہ اتنا لٹا ہوا، پٹا ہوا اور تھکا ہوا ہوتا ہے کہ انصاف اس وقت اس کے لئے بے معنی ہو جاتی ہے ۔ جب تک عام لوگوں کو فوری اور سستا انصاف انکی دہلیز پر مہیا نہ کی جائی تو وہ مزاق بن جاتا ہے ۔ یورپ اور امریکہ میں جب لوگوں کے درمیاں مسائل جنم لیتے ہیں تو اکثر ایسے معاملات عدالت کے باہر ہی طے کر لئے جاتے ہیں۔ کبھی کبھارہی لو گ عدالتوں کا رخ کرتے ہیں جب فیصلہ انکے خلاف آجائے تو پھر دوبارہ اپیل نہیں کرتے ہیں ۔اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگوں کو اپنے عدلیہ پر اعتماد ہے ۔ جبکہ ہمارے ہاں اگر کوئی بندہ طاقتور اور ظالم کے خلاف ڈٹ جاتا ہے تو اس کو اس طرح سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے کہ ہم تم کو کوٹ کچہری میں گھسیٹیں گے ۔ہال ہی میں سپر ماڈل ایان علی ائر پورٹ سے رنگے ہاتوں تیس کڑوڑ کے لک بگ منی لانڈرنگ کرتے ہوئے گرفتار کی گئی ۔ کیونکہ محترمہ انتہائی خاص لوگوں کے قریب تھی اس لئے ضمانت بھی ہوگئی بلکہ محترمہ کی ضمانت کی درخواست لاہور سے اسلام آباد بذریعہ خصوصی جہاز لایا گیا ۔ اسی طرح غریب کا بیٹا مفلسی اور غربت کی وجہ سے پیٹ کی آگ کو ختم کرنے کے لئے ایک ہزارر وپے کی چوری کرتا اور دس سال تک جیلو ں میں پڑا ہوا ہوتا ہے کونکہ کیس کی پیر وی کے لئے اس کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وکیل کی فیس ادا کریں ۔ ’’حضرت علیٰ کرم اللہ وجہہ کا قول ہے اگر کسی چور کو غربت کی وجہ سے چوری کرتا ہوا پکرا جائے تو اس کے ہاتھ کاٹنے سے پہلے اس وقت کے بادشاہ کے ہاتھ کاٹ لئے جائیں ‘‘ جب تک کسی معاشرے میں سزا اور جزا کا قانوں پرواں نہیں چڑ ھتا تو وہ معاشرہ ساکت اور بے حسی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ پچھلے وقتوں کے اقوام اسی لئے تباہ ہوئے کیونکہ وہ کمزور ، بے کس اور لا چار لوگوں کا محاصبہ کرتے تھے ۔ اس کے مقابلے میں طاقتور کو کو ئی کچھ بھی نہیں کہہ سکتا تھا ۔ قرآن مجید میں ناپ تول میں کمی یعنی میزان کے متعلق کئی وعید یں وارد ہوئے ہیں ۔ اور سابقہ اقوام بھی صفحہ حستی سے اس لئے مٹ گئی کونکہ وہ میزان کے بارے اہتمام نہیں کرتے تھے ۔ میزان سے مراد صرف ناپ تول نہیں بلکہ اس کے ذریعے ظلم نہ کرنے اور انصاف کرنے کا درس بھی دیا گیا ہے ۔ ابھی حال ہی میں چند انتہائی اہم شخصیات کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ یا وہ عدالتوں کا سامنا کر رہے ہیں ان میں یوسف رضا گلانی ، پرویز اشرف ، مخدوم امیں فہیم اور ڈاکٹر عاصم قابل ذکر ہیں ۔ وہی روایتی باتیں سننے کو مل رہی ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ ہے اور وفاق کو بھی خطرہ ہے ۔حد تو یہ ہے کہ نواز شریف صاحب بھی کہتے ہیں کہ انکے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں ۔شام میں خانہ جنگی کی وجہ سے لاکھوں لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہیں ۔ننی ایلان کی قربانی نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا پتھر رکھنے والا دل بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ اسکے نتیجے میں بعض یورپی ممالک اور خاص کر جرمنی اپنی سرحدیں اور دروازیں شامی مہاجریں کے لئے کھول دئے۔ جرمن چانسلر انجلہ مرکل کایہ تاریخی جملہ ہمیشہ کے لئے تاریخ کے اوراق میں محفوض ہو گیا ۔ ” ہم نے انتہائی مشکل حالات کے باوجود اپنے دروازے مسلمانوں کے لئے کھول دئے ، وہ ہزاروں میل لمبی سفر کر کے یہاں آئے ہیں حلانکہ مکہ اور مدینہ انکے بالکل قریب تھا ” ۔ یہ جملہ اسلامی امہ ، او ائی سی اور اسلامی دنیا کے لیڈروں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے ۔ آج سے تقریباً سترہ ہزار (17000 ) سال پہلے حضر ت ابراہیم ؑ کو خواب میں اللہ کی طرف سے حکم دیا گیا کہ اپنے لخت جگر حضر ت اسماعیل ؑ کو اللہ کی راہ میں قرباں کریں ۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اس حکم کے سامنے سر تسلیم خم کیا ۔ صبح حضر ت اسماعیل ؑ کو اس بارے میں بتایا تو انہوں نے کو ئی شکوہ اور گلہ نہیں کیا بلکہ فوراً ہی اس پر امادہ ہوئے ۔ جیسے ہی ابراہیم ؑ نے چری پھیرنا چاہا تومعصوم اسماعیل ؑ کی جگہ وہاں دنبہ نمودار ہو چکا تھا یعنی اسماعیل ؑ اور ابراہیم ؑ کی قربانی اللہ کے حضور مقبول ہو چکی تھی۔عید قرباں کا دن بہت جلد ا رہا ہے ہمیں اس دن صرف جانوروں کو قرباں نہیں کرنا چاہئے ۔ ہمیں اپنی انا ، خود غرضی ، لالچ ، تکبر اورحرص و لا لچ کو بھی ذبح کرنا چاہئے یہ ملک پاکستاں بہت بڑی بڑی اور عظیم قربانیوں کے نتیجے میں ہمیں ملا ہے خاص کر ان لوگوں کو سلام کرنا چاہئے ۔ جنہوں نے اپنا سب کچھ ہندوستاں چھوڑ کر یہاں تشریف لائے ۔ قدرت اللہ شہاب اپنے مشہور زمانہ کتاب شہاب نامہ میں ایک مقام پرایک خوف ناک واقعے کاذکر کرتا ہے اگر کسی میں زراسی بھی انسانیت ہوگی تو اس کا دل خون آنسو رونے پر مجبور ہوگا۔ وہ لکھتاہے کہ پا کستان بننے کے بعد مسلماں خانداں ہندوستاں سے مختلف چھوٹی بڑی گروہوں کی شکل میں ہندوستاں سے اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان کی طرف رواں دواں تھے ۔ کوئی پیدل ، کوئی بیلوں کے ذریعے اور کئی ریل گاڑیوں کو استعمال کرتے تھے ۔پپدل چلنے والوں کے لئے اس وقت ماحول اور حالات قیامت صغری سے کم نہیں تھا اکثر ہندو اور سکھ بلوائی ان پیدل اور بے بس مسلمانوں کو نشانہ بناتے تھے ۔ وہ لکھتا ہے کہ کئی پیدل چلنے والے خاندانوں نے اپنے لخت جگر یعنی جواں سال لڑکیوں کو کنووں کے اندر پھینکا اور انکو اپنے ہاتھوں سے ذبح کیا ۔ عزت و ابرو بچانے کے لئے انکے پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا ۔ معصوم اسماعیل ؑ کی تقلید میں انہوں نے بھی کو ئی شکوہ کوئی گلہ نہیں کیا ۔ اج کل الیکٹرونک میڈیا، سوشل میڈیا اور پارلیمنٹ کے اندر یہ جملہ بہت مشہور ہے۔”کوئی شرم نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے ، کو ئی حیا ہوتی ہے ” اگر ہم اور ہمارے ارباب اختیار کرپشن کریں گے کمزور پر ظلم کریں گے ۔میرٹ کی دھجیاں اڑائیں گے اپنے اختیارات کا غلط استعما ل کریں گے تو ہم میں اور ان ہندو اور سکھ بلواےؤں میں کوئی فر ق نہیں جو معصوم ، مجبور اور نا چار مسلماں لڑکیوں کو اپنے حواس اور درندگی کا نشانہ بنانے کے در پے تھے ۔پاکستاں کا سارا نظام اور صورتحال ہمارے سامنے ہے ۔لہذا عام ادمی بھی انکے لئے کہہ سکتا ہے کہ کچھ تو حیا کرو وار کچھ تو شرم کرو ۔۔۔۔