سلام ٹیچر ڈے

……. فدا الر حمٰن …..

ایک زمانہ تھا جب ۵ اکتوبر عالمی یو م اساتذہ قرار نہیں پایا تھا اس وقت استاد کیلئے ہر دن ۵ اکتو بر ہوتا تھا۔ اس زمانے میں ہسپتا ل میں علاج اور سکول میں پرھائی خالص ہوتی تھی ۔ڈاکٹر اور استاد حرص و لالچ سے نااشنا تھے۔ جب پید ل ڈاکٹر اور زنگ الود سائکل پر سوار استاد کو چہ و بازار سے گزرتا تھا تو ہر طر ف سے ڈاکڑصاحب سلام ، استاد محترم آداب کی اوازیں آتی تھیں ۔ ہر راہ چلتا ایسا مودب ہو جاتا جیسے شاہی سواری گزر رہی ہے۔ڈاکٹراور استاد دونوں مسیحا تھے۔ اہل محلہ کے باپ تھے۔دونوں طبقاتی اونچ نیچ سے قطع نظر بچے کی جسمانی و ذہنی صحت کے مسیحا و امین تھے۔لیکن آج سب کچھ بد ل گیا ہے ۔ تعلیم صنعت میں ، استاد مشین میں اور بچے کرنسی نوٹ میں تبدیل ہو تے چلے گئے ہیں ۔ آج کا استاد اپنی اصل ذمہ داری سے اغماض برت رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں اس کا مقام قابل ذکر نہیں رہا ہے۔ آج کا استاد اگر اپنی کھوئی ہو ئی عظمت کی بحالی چاہتا ہے تو اسے اپنے روئے پہ نظر ثانی کرنا پڑھے گی ۔ اس کو اپنا منصب اور مشن بڑھانا ہوگا ۔ اسے درس و تد ریس کو ہر کام پہ اولیت دینا ہوگا ۔ بدقسمتی سے آج کل آہستہ آہستہ ہمارا معاشرہ بھی استاد کی قدرو منزلت سے نا اشنا ہوتا چلا جارہا ہے۔ استاد کا وہ مقام نہیں رہا ہے جو چند سال پہلے تھا ۔ اس میں حکومت اور سول سوسائٹی دونوں قصور وار ہیں۔ مغرب اور دیگر ممالک میں اساتذہ کرام کی عظمت اور ان کی خدمات کے اعتراف کا خوبصورت عمل نظر بھی آتا ہے ۔افسوس ہے تیسری دنیا کے ترقی پذیر مما لک میں اساتذہ کو وہ مقام ملنا ابھی باقی ہے جس کا تقاضا ان کا شعبہ اور حالات کرتے ہیں ۔پا کستان کی صورت حال قابل غور ، قابل توجہ اور قابل رحم ہے ۔۔۔۔۔۔ استاد جس کی توجہ کی نگاہ درس و تدریس پہ ہو نا چاہئے تھی سرکا ر مردم شماری ، انسدا د پولیو اور الیکشن سمیت جیسے دیگر اہداف کے حصو ل کیلئے سرکا ری ٹیم کا حصہ بنا ہو ا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ استا د اور درس و تدریس کے ما بین دلچسپی اور کمٹمنٹ کی سر حدیں کمزور پڑ رہی ہیں ۔
دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اکتوبر کی ۵ تاریخ کا دن اساتذہ کرام سے منسوب ہے اس روز اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیا ت اپنے اساتذہ کرام کو فون کرکے ان کی خیریت پوچھتی ہیں ، تحایف دئے جاتے ہیں اور پھر سرکا ر وعدہ کرتی ہے کہ وہ اساتذہ برادری کے ساتھ ہے یوں خوبصورت یادوں میں۵ اکتوبرکا دن بھی ماضی کا حصہ بن جاتا ہے۔ افسوس یہ محبت، عقیدت اور احترام صرف ایک دن کیلئے مخصوص ہو تا ہے۔ ہما رے دین میں بھی معلم کا درجہِ بلند ترین ہے۔ پیغمبر اسلام معلم اعلیٰ ہے ۔ آپٌ کی نسبت نے اس پیشہ کو مقدس بنایا ہو ا ہے ۔استاد ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کاوارث اور جان نشین ہو تا ہے ۔معاشرے میں سب سے خوش قسمت اساتذہ کرام ہیں جن کی عزت ،گھر ، درسگاہ اور معاشرے میں سب سے زیادہ ہے۔ آج بھی ٹرانسپورٹ ، عدالتوں،درسگاہوں اور دفا تر میں اساتذہ کرام کو حیرت انگیز حدتک عزت و احترام دیا جاتا ہے۔آج مملکت پاکستان میں خاص کر پرائیو یٹ سکو لوں کے اساتذہ کی معاشی حالت بہت ابتر ہے ۔
حکو مت وقت کو چا ہئے کہ وہ ان اساتذہ کی طرف بھی نظرکرِم کریں۔حکو مت وقت انقلابی نوعیت کے فیصلے کرے اور پرائیو یٹ سکو لوں کے اساتذہ کو بھی معا شی دلدل سے باہر نکالے۔ یاد رکھیں خوشحالی تعلیمی ترقی سے ہی مشروط ہے اور ملکی ترقی کے تمام راستے اساتذہ کی بہتری سے ہی سامنے آتے ہیں۔اسلامی معاشرے میں استاد کو باپ سے بھی زیادہ درجہ حاصل ہے ۔ حضرت علیؓ کا قول ہے’’ جس نے مجھے ایک حرف بھی سکھایا میں اس کا غلام ہوں وہ چا ہے مجھے بیجے آزاد کرے یا غلام بنائے ‘‘ اور ہمارے تاریخ میں خلیفہ وقت کا بیٹا استاد کے پاؤ ں دھلانے میں فخر محسوس کیا کرتا تھا۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ کہ ہم اپنے بچوں کو اساتدہ کرام کی قدرو منزلت سے روشناس کروائیں اور معاشرے میں استاد کو وہ مقام دیں جس کا وہ مستحق ہیں ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔