تذکیر بئایام اللہ 

……..قاضی سلامت اللہ سالک…….

یہ ایک عالمگیر اور آفاقیحقیقت ہے کہ ” وقت غم کو شکست دیتا ہے ” ۲۶ اکتوبر ۲۰۱۵ ؁ کی ویران اجھڑی ہو ئی بلکہ صحیح ترین الفاظ میں وحشت نا ک ظہر کو ہم اختتام زندگی سمجھ رہے تھے۔ بظاہر یہ شام زندگی حقیقت میں صبح دوام زند گی کی صورت ایک نئے دور کا آغاز بن رہی تھی۔ان چند سیکنڈ کو واقعے کے طور پر بیان کرنا محدود علم کے مالک انسان کے لئے ناممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے۔تاہم اپنے مشاہدے کی چند سطریں صفحہ قرطاس میں سیاہ کرکے دل کو تسلی دیتے ہیں ۔شاید یوں لگا کہ کسی طاقتور ترین ذات نے کرۂ ارض کوجھنجوڑ کر شہر خموشان بسایا پھر اسی ذات نے حضرت اسرافیل سے کہا کو ان بچے کھچے انسانوں کو پھر سے زندہ کرو شاید کے یہ شکر گزار بنے ۔ اس وقت انسان اپنے آپ سے سوال کررہا تھا کہ میرے سا تھ کیا ہوا ، میں کیسے بچا ، زمین کو کیا ہوا جواب میں حیرانگی اور خاموشی تھی جب سامنے بکھری لاشوں اور ملبے کے ڈھیروں کی طرف دھیا ن گئی تو پھر شہر خموشان یکایک شور محشرمیں تبدیل ہو گیا اس کے بعد لوگ مصروف ہو گئے ۔ کچھ ملبے تلے عزیزں کو تلاش کرنے لگے کچھ زخمیوں اور لاشوں کو اٹھا کر ہسپتا ل کی طرف چل دےئے ۔
الخدمت فاؤنڈیشن کے رضا کا ر بغیر کسی اشتہار اور پبلسٹی کے ہسپتال کے احاطے میں خلق خدا کے خدمت کے لئے موجود تھے ۔اس زلزلے کو سہنے اور دیکھنے والے ہر انسان کا اپنا تجربہ ہے اپنا مشاہدہ۔کسی کے سامنے خلق خدا وہشت ناک صورت میں سامنے آئی تو کسی کے سامنے انسانیت پرستان کی تصوراتی شہزادی سے خوب صورت شکل میں سامنے آئی ۔ کو ئی اپنے باپ دادا کے تعمیر کردہ عمارتوں پر رو رہا تھا تو کوئی حکو متی ریلیف کو ممکن بنانے کیلئے اپنے ہاتھو ں سے بنائے صحیح سالم دیواروں کو مسمار کر رہا تھا۔ علما ء کرام عذاب الٰہی کہہ کر اپنا غصہ ٹھنڈا کر رہے تھے اور ارباب تصوف ازمائش سے موسوم کررہے تھے۔ جدید تعلیم یافتہ زمین کی فطری پیچید گیوں اور 193 کلو میٹر گہرے پلیٹز کے پسلنے پر محو گفتگو تھے بہر حا ل یہ کائنا ت کے رنگ ہیں اس کا تنوع اور حسن ہے ۔
رویوں کا تنوع اور کرداروں کا تنوع بقول ذؤق کل ہا ئے رنگ ، رنگ سے ہے زینت چمن
قرآن کے مطالعے سے جو بات ذہن میں پڑتی ہے وہ یہ ہے زمین پر آباد اور بسنے والے ہر انسان کا اپنے اعمال کا سرے سے جائزہ لینا چاہئے ۔ جائزے کیلئے قرآن و سنت کے واضح اور قانون فطرت کے دو ٹوک ترازو کی طرف رجوع ضروری ہے ۔ میرے مبلع علم نے مجھے بتایا اگر تم اپنے اعمال سے مطمئن ہو تو یہ تمھارا امتحان اور ازمایش ہے اگر نہیں تو عذاب کی ایک شکل بھی ہے ۔ لیکن اس بات پہ دو رائے نہیں ہے اللہ پاک نے نیک و بد اچھے اور برے سب کو ایک نئی زندگی عطا کی ہے۔ خو ش قسمت ہے وہ شخص جو اس بڑے مہلت سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے حقیقی رب کو راضی کریں اور مطمئن ہو کر باقی ماندہ زندگی گزریں۔ایسے میں موت شام زندگی نہیں بلکہ دوام زندگی ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔