صدا بصحرا ………

……….ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ……….
پارلیمنٹ نے 1973 کے آئین میں اکیس بار ترمیم کی ہے ان میں آٹھویں تریم نے آئین کا ادھا حصہ ختم کر دیا ستر ھو یں ترمیم نے آئین کو دو بار ہ بحال کر دیا اب با ئیسویں ترمیم کے لئے غور و خوص ہو رہا ہے اس میں کیا کیا باتیں آئینگی یہ آنے والا وقت بتا ئے گا دہشت گرد ی کی بحث کے بعدسب سے اہم بحث یہ ہے کہ پاکستان میں عوام کو اقتدار میں کب شریک کیا جائے گا چائے والا ، ریڑھی والا ، ٹیکسی والا ، مزدور ، کسان ، غریب یا عالم دین صحافی ڈاکٹر ، انجینئر ، پروفیسر اور وکیل کب اپنی قابلیت کے ذریعے اقتدار میں آئے گا؟ کب وہ دن آئے گا جب عبد الستار ایدھی ، رحیم اللہ یوسف زئی ، ڈاکٹر اے کیو خان ،جسٹس وجیہہ الدین ،ڈاکٹر عطا ؤ الرحمن ، مولانا تقی عثمانی کی طرح ہو نہار لوگوں کو پارلیمنٹ میں جگہ ملے گی ان کی ذہانت سے ملک اور قوم کو فائد ہ ہوگا ؟ یہ ایک اہم بحث ہے مگر اب تک اس بحث کاکوئی سرا ہاتھ نہیں آیا روس، چین ، شمالی کوریا ، ترکی ، ایران اور بھارت میں غریب لوگ اپنی ذہانت، قابلیت ، محنت اور اچھی شہرت کی وجہ سے اسمبلیوں میں جاتے ہیں کا بینہ میں جگہ پاتے ہیں اقتدار میں حصہ دار بنتے ہیں ہمارے ہاں یہ نا ممکن ہے کراچی میں ایم کیو ایم نے غریب لوگوں کو اسمبلیوں میں پہنچا یا تھا مگر یہ تجربہ نا کام ہوا خیبر پختونخوا میں متحد ہ مجلس نے غریب لوگوں کو اقتدار میں حصہ دیا تھا ایسے لوگ اقتدار میںآئے تھے جن کے بچے سرکاری سکولوں میں پڑھتے تھے اور جنکے گھر والے سرکاری ہسپتالوں میںآکر اوپی ڈی کی قطار میں شامل ہو کر علاج کی سہولت حاصل کر تے تھے یہ وہ لوگ تھے جو گھر پر بھی ، مسجد میں بھی ، دفتر میں بھی عوام سے ملتے تھے سب کے دُکھ درد میں شریک ہوتے تھے لیکن یہ تجربہ بھی نا کامی سے دوچار ہوا ہمارے اسمبلیوں میں 95فیصد وہ لوگ ہیں جو جاگیر داروں ،سر مایہ داروں اور صنعتکاروں کی نما ئیند گی کرتے ہیں عوام کی نما ئند گی نہیں کرتے اس وجہ سے عوام کے مسائل میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے معاشرتی ڈھانچہ روز بروز زوال کی طرف جارہا ہے سماجی اور سیاسی نظام بربادی سے دوچار ہے معاشی نظام دیوالیہ ہونے جارہا ہے کیونکہ 95% عوام اقتدار سے باہر ہے حکومت پر صرف 5 فیصد جاگیر دار اور سر مایہ دار ٹولے کا قبضہ ہے اس مسئلے کا حل دو صورتوں میں ممکن ہے ملک کے آئین میں ترمیم کر کے پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام لا یا جائے اور اسمبلیوں کے انتخابات میں انفرادی اُمید واروں کا سلسلہ ختم کر کے متناسب نما ئیندگی کا طریقہ لا یا جائے عوام پارٹیوں کے حق میں ووٹ کا سٹ کرینگے سیاسی پارٹیاں اپنے ووٹ کے تناسب سے اسمبلیوں کے لئے ہر طبقہ زندگی سے اراکین نامز د کرینگے مثلاً مسلم لیگ (ن) کو 40 فیصد ووٹ ملے یہ پارٹی مزدوروں ، کسانوں ،صحافیوں ، کھلاڑیوں ، ماہرین ، تعلیم ، ماہرین قانون ، ڈاکٹروں ،وکیلوں انجینئر وں، علما ء اور تاجروں سمیت زندگی کے ہر طبقے سے اراکین اسمبلی کے لئے نام جمع کر یگی ان میں سے 40 فیصد اراکین منتخب ہونگے یہ ایسی فہرست ہوگی جو موجودہ سسٹم میں خواتین اور اقلیتوں کی نما ئندگی کے لئے الیکشن کمیشن یا ریٹرننگ افیسر کے پاس قبل از وقت جمع کی جاتی ہے اس میں پارٹی اس بات کا پابند ہو گی کہ ہر طبقے سے لوگوں کے نام دیدے اس کا فائد ہ یہ ہو تا ہے کہ اُمید وار کو اسمبلی سیٹ جیتنے کے لئے 10 کروڑ یا 15 کروڑ روپے خرچ کر نا نہیں پڑتا بعض پارٹیوں میں ٹکٹ کے لئے کروڑ ڈیڑھ کروڑ روپے چند ہ لینے کا دستور ہے اس دستور کو بھی پارٹی کے اندر غریبوں کی لابی کے ذریعے ختم کر ایا جاسکتا ہے جن پارٹی کی لسٹ میں سرمایہ داروں کے نام ہونگے اس پارٹی کو غریبوں کے ووٹ نہیں ملینگے متناسب نمائندگی کے ذریعے اسمبلیوں میں عوام کے نما ئیندوں کو لا یا جاسکتا ہے ایسے نما ئیندوں کے ذریعے غریبوں کے مسائل اسمبلیوں میں زیر غور لا یا جاسکتا ہے جس شخص نے بس اور ویگن میں سفر نہیں کیا سرکاری سکول کا دروازہ نہیں دیکھا سرکاری ہسپتال سے کبھی علاج نہیں کیا غریبوں کے بازار سے سودا سلف خرید نے کا تجربہ نہیں کیا رکشہ ، تانگہ ، ٹیکسی اور ریڑھی والے کے ساتھ کبھی بھاؤ تاؤ نہیں کیا وہ شخص اسمبلی میں جاکر غریب کی بات کیوں کریگا؟ حکومت میںآخر غریب کی نمائندگی کس لئے کریگا ؟ وہ غریب کے خلاف ہونے والی دہشت گردی کو کس طرح ختم کریگا ؟ اس لئے ملک کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے کا حل تناسب نمائندگی کے ذریعے نیا انتخابی نظام متعارف کر انے میں مضمر ہے اسی طرح موجودہ پارلیمانی نظام بھی ناکام ہوا ہے جنرل مشرف اور آصف علی زرداری کا دور اس لئے سیاسی استحکام کا دور تھا کہ اس وقت اختیارات صدر کے پاس تھے فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنرل ضیا ء الحق کے ادوار میں بے مثال ترقی ہوئی وجہ یہ تھی کہ اختیارات صدر کے پاس تھے اگر کوئی وزیراعظم تھا بھی تو وہ برائے نام تھا جو نیجو ، جما لی ، اورگیلانی نے وزیراعظم بننے کی کو شش کی تو ان کو گھر بھیجد یا گیا صدارتی نظام میں صدر براہ راست منتخب ہوتا ہے اپنی شہرت ، قابلیت اور نیکنا می کے بل بوتے پر منتخب ہو تا ہے ،اس راہ میں ریفر نڈم کا راستہ روکا جا سکتا ہے فرض کریں ڈاکٹر اے کیو خان صدارتی انتخاب میںآیا تو قوم 90 فیصد و وٹوں سے ان کو منتخب کریگی کوئی اور نیکنا می شخصیت آگئی تو قوم اُس کے حق میں ووٹ ڈالے گی اس طرح قوم کا حقیقی نمائیندہ قوم کا حکمران بنے گا سیاسی افرا تفری کا خاتمہ ہوگا عدم استحکام کا راستہ بند ہوگا یہی پاکستان کے مسائل سے نکلنے کے دوحل ہیں ہمیں جلد یا بدیر آئینی ترمیم کے ذریعے صدارتی نظام اور متنا سب نما ئیند گی کے طریقہ انتخاب کی طرف جا نا ہوگا
وہی نا محکمی وہی دیر ینہ بیما ری دل کی
علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ساقی
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔