تلخ ترین حقیقت

موت تین الفاظ پر مبنی ایک نام ہے ۔جسکی ہیبت سے بڑے بڑے پہلوانوں اور خود سروں کے پسینے چھوٹتے ہیں ۔ اور بدن پر کپکپی طاری ہوتی ہے۔ موت دنیا کی لذتوں کو مٹانے اور دنیا سے ناتہ توڑنے حرص وہوس کی آنکھوں کو بند اور تیز طرار زبان کوخاموش کرنے والی چیز ہے ۔ موت زندگی کی اختتام اور دنیا سے آنکھیں بند کرنے کا نام ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے ۔ جس سے دنیا میں کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا ۔ اس سے چھٹکارے کا کوئی امکان نہیں۔ اور نہ اس سے فرار کی گنجائش ہے۔ موت کے لئے معین وقت میں ایک لمحے کے لئے بھی توسیع کی خاطر پوری دنیا کی مال و دولت لٹا یاجائے تو بے سود ہو گا۔ اگر حکومت کے زریعے بچنے کی گنجائش ہوتی تو فرغون اپنی خود ساختہ خدائی کے زریعے آج زمین پر دندنا رہا ہوتا ۔ اگر عقل وخرد کے زور سے چھٹکارہ ممکن ہوتاتو ھامان اپنی عیاری اور چالبازی سے اسے ٹرخا کر بچ سکتے۔ اگر مال و دولت کے سہارے اسے روکا جاسکتا تو قارون خزانوں کی چابیاں اونٹوں پر لادے دولت کے پجاریوں کے رال ٹپکواتے پھیرتا نظر آتا ۔ اگر طاقت اور قوت بازو سے موت پر قابو پایا جاسکتا تو رستم اور سہراب چارپائی پر بے سدھ پڑے اسکی آغوش میں نہ جاتے ۔ دوائیوں کے زریعے اگر اس کا مداواہو سکتا تو افلاطون اور جالینوس شفا خانوں پر ہر اجمان نظر آتے ۔ اور حکومت اور دانائی اگر اس کی راہ میں مانع ہو سکتی تو لقمان اس کی ذد میں نہ آتے ۔ اگر یہ رشتے ناتوں کی حلاوت اور مٹھاس کا خیا ل رکھتی تو ماں کا لخت جگر اسکی گودسے چھینتے ہوئے اس ترس آتی ۔ مطلب یہ ہے کہ مقررہ وقت ہر ہر کسی کو موت کے سامنے ہتھیارکھنا پڑے گا ۔ اس لئے میرے عظیم پیغمبر ﷺکے ارشاد کا مفہوم ہے کہ ہوشیار انسان وہ ہے ۔ جو موت سے قبل موت کی تیاری کرے ۔ ٓپؐفرماتے ہیں۔ کہ اگر حیوانات کو موت کی حس ہوتی تو دنیا میں ایک بھی موٹا حیوان نہ ملتا ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہو سے کسی نے نصیحت کے لئے تقاضا کیا تو آپ نے فرمایا کہ چلتے پھیرتے انسانوں کا انکھوں کے سامنے زمین یوس ہونے سے موثر نصیحت کچھ نہیں ہو سکتی ۔ ایک بزرگ کا کہنا ہے کہ جو شخص موت کو کثرت سے یاد رکرتا ہے تو اسے تین چیزوں کا اعزاز نصیب ہوتا ہے۔ توبہ میں جلدی ، میسر روزی پر قناعت اور عبادت میں فرحت ۔ اور جو شخص موت کا دھیاں نہیں رکھتا تو تین چیزوں میں مبتلا ہونے کی سزا ملتی ہے توبہ میں تاخیر، مقدر کی روزی پر بے صبری اور عبادت میں سستی ۔
وہ عقل وخرد کے مالک انسان ماتم کرنے کے قابل ہے جو ان چشم کشا حقائق کے باوجود دنیا سے رغبت کی بنیاد پر ہر اس عمل سے گریز نہیں کرتا جو بعد از مرگ ابدی زندگی کی بربادی کا سبب بنتے ہیں حرام زرائع سے حاصل شدہ آمدن پر ناذان ہوتا ہے۔ اور مال و دولت سے گھمنڈ میں قرابت داری کے تقدس کو بھی پامال کرنے سے بھی احتناب نہیں کرتا ، شچنی بگھارتا ہے۔ شرف انسانیت سے بے بہرہ ہو کر کسی کی تذلیل پرشاداں ہوتا ہے۔ خدا خوفی قریب سے بھی نہیں گزرتا ۔عمر عزیز کی سوبہاریں گزار کر جاتے ہوئے بھی دل میں یہ احساس لئے جاتا ہے کہ
آتے ہوئے اذان تو جاتے ہوئے نماز
اس مختصر سے وقت میںآئے چلے گئے ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔