*احساس ذمہ داری*

آج کل معاشرے میں نوجوان نسل کی اخلاقی گراوٹ اور نافرمانیوں کے گلے شکوے زبان ذد عام ہیں ۔اور اس کے محرکات کے طور پر مختلف استدلال پیش کئے جاتے ہیں جن میں آلات جدیدہ کے منفی اثرات اور ماحول کا خصوصی طور پر ذکر کیا جاتا ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بچوں کی ابتدائی تربیت کا انکی پوری زندگی پر پڑنے والے اثرات کی اہمیت مسلمہ ہے۔ یوں قوموں کے عروج و زوال اور ملکوں کی تعمیر و تخریب کا راز والدین کی پرورش اور پرداخت میں مضمر ہوتا ہے۔ حقیقتاً ملک و ملت کی مقدر کی باگیں والدین کے ہاتھ میں ہوتی ہیں ۔ کیونکہ اگر کسی قوم کے والدین احساس ذمہ داری سے سرشار اور تعمیر ملت کے تقاضوں پر عمل پیرا ہونگے تو اس قوم کی عروج و ترقی کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی ۔ اس کے برعکس اگر والدیں مذکورہ اوصاف سے بے بہرہ ہوں تو ظاہر ی بات ہے کہ مطلوبہ جذبے کو نوجوان نسل تک منتقلی کسی اور کے بس کی بات نہ ہوگی ۔ اور یوں اس قوم کو ذوال اورانحطاط کے گڑھے میں گرنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ اولاد پر والدیں کی تربیت کے اثرات کی ناقابل تردید حقیقت کے پیش نظر انسانیت کے عظیم معلم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ایک بچہ فطرتاََ مسلمان پیدا ہوتا ہے اور یہ والدین پر موقوف ہے کہ وہ اسے یہودی بناتے ہیں یا نصرانی بناتے ہیں ۔ یہاں یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ ایک بچے کی اولیں درسگاہ کی حیثیت ماں کی گود کو حاصل ہے جہاں گفتار کی حلاوت اور کڑواہٹ کے ساتھ ساتھ کردار کی رفعت اور پستی پتھر پر لیکر ک ے مصداق بچے کی ذہن پر ایسے نقوش چھوڑتے ہیں جنہیں کوئی بھی کرید کر نہیں مٹا سکتا ہٹلر کے اس قول سے بھی ہر کوئی واقف ہے کہ مجھے تعلیم یافتہ مائیں دئیے جائیں میں جرمنی کی سر زمین کو ایک عظیم قوم دونگا۔اس تقاضے کی اہمیت سے صرف ہٹلر ہی واقف نہ تھا بلکہ ہر ذی شعور کو احساس ہوگاکہ اگر والدیں خود کو ایک مالی کا روپ دھاریں اوراپنے گھر کے انگن میں لگنے والے پودوں کی صیحح معنوں میںآبیاری اور نگہداشت کریں ایک معمار کی حیثیت سے اپنی امیدوں کے مسکن کی بنیادی طریقے اور سلیقے سے رکھیں ایک کسان کی حیثیت سے انسانیت کی کھیتی کی حفاظت پر دھیاں دیں تو ایک ایسے معجزے کا رونما ہونا بعید از امکان نہیں جسے دیکھ کر ساری دنیا زبان حال سے پکار اٹھے کہ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی ۔یہاں نوجوان نسل کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ بے رہروی کی صورت میں وقت بیتنے پر کف افسوس ملنا ہوگا۔ بچپن میں شیخ سعدیؒ اپنے والد محترم کی انگلی پکڑ کر کہیں جا رہا تھا۔ ایک جگہ بندروں کو نچایا جا رہا تھاان کا نظارہ کرنے میں مگن ہو کر انکی انگلی باپ کی انگلی سے نکل جاتی ہے۔ ان کے والد بیٹے کی طرف دھیاں نہ دیتے ہوئے اپنے ہم عصروں کے ساتھ محو گفتگو رہتے ہوئے کافی دور نکل جاتے ہیں سعدی ؒ کی توجہہ جب والد کی طرف ہوتی ہے توبہت ڈھونڈنے کے بعد نہ ملنے پر چیخنا چلانا شروع کر دیتے ہیں ادھر باپ جب مڑ کر بیٹے کو غائب پاتے ہیں تو واپس گھومتے ہوئے بندروں کے ناچنے کی جگہ پر بچے کو روتے ہوئے پاکر غصے سے ایک تھپڑ مار کر کہتے ہیں کہ نادان بچہ جو بیوقوف اولاد والدین کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے دیتے ہیں تو تمہاری طرح عمر بھر روتے رہتے ہیں ۔ سعدی ؒ کہتے ہیں کہ ہوش سنبھالنے کے بعد اپنے والد کے اس ارشاد کا جائزہ لیا تو یہ حقیقت مجھ پر عیاں ہو گئی کہ جو کوئی ذندگی کے میلوں اور کھیل تماشوں میں غرق رہتے ہوئے اپنے بڑوں کی دینی اقدار اور اخلاقی تربیت کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے کا ادراک نہیں رکھتے تو ہوش میں آنے کے بعد نادم ہوکر رونے پر مجبور ہوتے ہیں ان حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے بجا طورپر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی طرز تربیت سے نا آشنا اور غافل والدیں خود کو اولاد کی بے رہرویوں سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے اور جہاں ہر ذمہ دار اسے اسکے ما تحتوں کے بارے میں باز پرس ہونے کے بارے میں مخبر صادق کے ارشاد سے گلو خلاصی نہیں کی جاسکتی وہاں ہر کسی کو اعمال بد کا خمیارہ بھی بھگتنا پڑے گا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔