پاکستان سے تعلقات برادرانہ نہیں بلکہ دو ریاستوں کے ہیں، افغان صدر
کابل(نیٹ ڈیسک) افغان صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات برادرانہ نہیں بلکہ دو ریاستوں کے تعلقات ہیں اور ہم اس حق کا مطالبہ کر رہے ہیں جو بطور ریاست ہمیں ملنا چاہیے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے افغان صدر کا کہنا تھا کہ میری ڈکشنری میں دو ریاستوں کے درمیان تعلقات میں مایوسی کا لفظ نہیں اور ہمارے پاکستان کے ساتھ تعلقات دو بھائیوں کے باہمی تعلق جیسے نہیں ہیں بلکہ یہ دو ریاستوں کے تعلقات ہیں، پاکستان دہشت گردی کے خلاف ایک ہی موقف اپنائے اس سے قطع نظر کہ دہشت گردی میں کونسا گروہ ملوث ہے اور اس کا نشانہ وہ خود بنتا ہے یا پھر کوئی اور ملک جب کہ افغانستان عالمی برادری کے ایک ذمہ دار ملک کا رویہ اپنائے ہوئے ہے اور ہمیں بہت زیادہ امید ہے کہ اس بات چیت کا پھل ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنے ملک میں تو دہشت گردی کے خلاف سخت موقف اپنائے ہوئے ہے لیکن جو افغانستان کو برباد کر رہے ہیں ان کے لیے الگ موقف نہیں ہونا چاہیئے جب کہ پاکستان کے پاس اب انتخاب کا موقع ہے کہ وہ عالمی برادری کا ایک ذمہ دار ملک کا کردار ادا کرتا ہے یا نہیں۔ اشرف غنی کا کہنا تھا کہ دہشت گردی پاکستان کے لیے بھی اتنا بڑا خطرہ ہے جتنا کہ افغانستان کے لیے، پشاور کے بچے اور ان کے فوجی ان کے لیے یاددہانی ہے کہ دہشت گردی کے معاملے میں اچھی یا بری کی تمیز نہیں کی جا سکتی اور جب تک امن کا حصول نہیں ہوتا اس وقت تک دہشت گردوں کی پناہ گاہیں بھی رہیں گی اور ان کی مدد کا نظام بھی موجود رہے گا۔ افغان صدر نے طالبان کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اب ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ انتخاب کریں کہ آیا وہ افغان ہیں یا عالمی شدت پسند اور علاقائی تسط کے آلۂ کار، اگر وہ افغان ہونے کا انتخاب کریں تو یہاں امن آجائے گا ورنہ وہ تنہا رہ جائیں گے کیونکہ ان کی حمایت کوئی نہیں کرے گا اور انھیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر بچوں اور معصوم لوگوں کو قتل کرنے پر وہ کس قدر غیر مقبول ہو چکے ہیں۔ انہوں نے سابق حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کو 2002 سے ملنے والی مالی مدد کے برعکس سابق صدر اور ان کی حکومت کے لیے ملازمتیں پیدا کرنا ترجیح نہیں رہا اور ایسی معیشت ورثے میں ملی جو شدید مالی بحران سے دوچار تھی۔