انوازی۔۔۔۔۔۔۔یادگار سفر

مرشد جب آتا ہے نئی ،پرانی ، گھسٹی ، پٹی کوئی بھی خبر اپنے ساتھ لاتا ہے۔ آج آیا تو اُس نے کہا ہسپتال سے آرہا ہوں میں نے کہا خیر باشد! مرشد بولا میرے پسندیدہ ادیب اور شاعر ، پندیر، برادر، کرکٹ، موچھائی ، استانی، نیسونی اور دیگر مقبول ترین نظموں کے شاعر ، نقطہ نگاہ کے مصنف مولا نگاہ نگاہ صاحب DHQہسپتال چترال کے انٹنسیو کیئر یونٹ (ICU) میں داخل ہیں۔ میں نے کہا ایک چھوٹے سے حادثے کی وجہ سے ایئر پورٹ سے ہسپتال لائے گئے تھے واپس گھر چلے گئے ماشاء اللہ خوب باتیں کرتے ہیں ہنساتے ہیں ، رلاتے ہیں ،کھوارکی قدیم شاعری ، اردو کی جدید شاعری ، فارسی کے اساتذہ کا کلام ICUمیں بھی ان کی زبان پر ہے۔ مجھے اپنی بیماری اورصحت یابی کا حال سنایا پاؤں میں موچ آگئی تھی اس وجہ سے گر پڑے تھے ۔مسئلہ کوئی نہیں مُرشد نے کہا ہسپتال میں دوست احباب ، اعزہ، اقربا اورادیبوں ، شاعروں کی بڑی تعداد جمع تھی، میں نے کہا ایسا ہوتا ہے۔ ان کی شخصیت اتنی پیاری ہے کہ ان کے گرنے کی خبر جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی لوگ خود بخودجمع ہوگئے۔سیف الدین سیف ؔ کا شعر ہے
کوئی ایسا اہلِ دل ہو کہ فسانہ محبت
میں اس کو سنا کے رؤں وہ مجھ کو سنا کے روئے
مرشد نے کہا آپ نگاہ صاحب کو کب سے جانتے ہیں ؟ میں نے کہا یہ لمبی کہانی ہے تمہاری سمجھ میں آنے والی نہیں۔ چھوڑو اس بات کو، نیا کوئی موضوع لے آؤ، مگر مرشد کی سوئی نگاہ پرٹھہر کر رہ گئی تھی۔ آخر کب سے آپ ایک دوسرے کو جانتے تھے؟میں نے کہا نگاہ صاحب کا نہیں پتہ ، اپناحال سنا دیتا ہوں۔ مرزا محمد سیر کی ایک غزل کا مقطع ہے
مستانہ ام سیر چوکشا دم لب از عدم
مادر بجائے شیر بکامم شراب ریخت
مرشد نے کہا ایک فارسی ، پھر شاعری ، اوپر سے مرزا محمد سیر کی شاعری اور آپ کا بیچارہ مرشد ! پلے کچھ نہیں پڑا میں نے کہا سیر کہتا ہے کہ میرے محبوب !میں نے جب ہونٹ کھولے ، میری ماں نے دودھ کی جگہ تیری محبت کا شراب مجھے پلایا ۔ گویا تیرا عشق مجھے گٹھی میں ملا ہے۔ مرشد نے کہا جی چاہتا ہے نگاہ صاحب کے ساتھ پکنک پر جا کر کسی خوب صورت مقام پر جھیلوں ، آبشاروں اور سبزہ زاروں کی سیر کی جائے۔اوران کی دلچسپ گفتگو کا لطف اٹھایا جائے، میں نے کہا ٹھیک ہے ۔ شندور اور پھنڈر کا پروگرام بناتے ہیں اور نگاہ صاحب کو مناتے ہیں ۔ میں کہا مرشد تم نے میری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے ۔مجھے یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ نگاہ صاحب کے ہمراہ ایبٹ آباد، مانسہرہ ، ڈوڈھیال اور بالا کوٹ کی سیر کا لطف اٹھایا۔ یہ یادگار سفر تھا۔
مانسہرہ کے ریجنل انٹی ٹیوٹ فارٹیچر زایجوکیشن (RITE ) میں 5زبانوں میں نصاب سازی پر نظر ثانی کا ورکشاپ تھا۔ میں نے حسبِ عادت ورکشاپ میں شرکت سے معذرت کی تھی۔ مگر نگاہ صاحب نے فون کیا اور اپنے مخصوص انداز میں تمہید باندھ کر گفتگو کا آغاز کیا، بات لمبی ہوگئی تو میں سمجھ گیا کہ’’ حسنِ طلب ‘‘ کا مرحلہ آنے والا ہے۔ تشبیب ، گریز اور مدح کے بعد وہ مرحلہ آیا تو کہنے لگے اب آپ ہمارے ساتھ نہیں ہونگے تو میں بھی جانے والا نہیں ۔ رہنے دو۔ اس پر میری رگ صحافت پھڑک اُٹھی میں نے کہا جائے واردات بھی پسند آگیا ہے ساتھی بھی ملا ہے اس بہانے آپ کی صحبت حاصل رہے گی۔ میں تیار ہوں آپ بھی رختِ سفر باندھ لیجئے نگاہ صاحب نے سفر کی تیاری شروع کی میں نے بھی مرزا غالب کا مطلع گنگناتے ہوئے اپنا سفری بیگ اُٹھایا
جب بتقریب سفر یار نے محمل باندھا
تپشِ شوق نے ہر ذرے پہ ایک دل باندھا
بذلہ، سجنی اور لطیفہ گوئی کا سلسلہ کوپ ریشت کے اڈے سے شروع ہوا ضیاء الدین استاذکی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ایک سال کا واقعہ ہے۔۔۔۔ہم ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے ، پھر کیا تھا خدا دے اور بندہ لے غواگئے کا ڈرائیور ان کے نشانے پر آیا شکر ہے اس کو کھوار نہیں آتی تھی اُس کی دادی جان کے سارے لطیفے نگاہ صاحب کو معلوم تھے ۔ان دنوں لواری ٹنل دن کے ایک بجے کھلتا تھا اندر کچا راستہ تھا۔ پانی بہت آتا تھا۔ کیچڑ بھی بہت تھی۔ سرنگ میں داخل ہوکر 3منٹ ہوئے تھے کہ دھماکہ جیسی آواز آئی ۔ غواگئے کا کوئی اہم پرزہ ٹوٹ گیا ۔ گاڑی ہچکولے کھاتی ہوئی رک گئی ’’ ایمان بچ گیا میرے مولا نے خیر کی‘‘ ہم لوگ جلدی جلدی نیچے اترے ۔ ڈرائیور سے کہا ہم واپس جاکر زیارت سے دوسری گاڑی لے آتے ہیں ۔ جنانچہ ہر ایک نے اپنا بیگ اُٹھایا ۔ بوٹوں جرابوں سمیت کیچڑ میں دوڑ لگا دی ۔ سامنے سے آنیوالی گاڑیاں بھی حسبِ توفیق ہم پر کیچڑ اُچھال رہی تھیں، نگاہ صاحب کی رگِ ظرافت پھڑک اُٹھی ، بولے یہ سارے ڈرائیور کیا سیاست دا ن بن گئے ہیں کیچڑ اچھالنا ان کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے۔ ضیاء الدین استاذ نے کہا پرنسپل صاحب! ولا حول پڑھو یہ مذاق کا موقع نہیں ، نگاہ صاحب نے کہا تیرے’’ ولا حول ‘‘ نے ہمیں یہ دن دکھایا ہے۔ جہاں3 منٹ گاڑی نے لگانے تھے وہاں سے ہمیں باہر آنے میں 15منٹ لگے۔ راستے میں مرغی والی دو گاڑیوں نے
نگاہ صاحب کو سیٹ آفر کی مگر وہ ماننے پر آمادہ نہ ہوئے ایک جگہ ضیاء الدین استاذ سے کہا بھئی ! میرا منہ کیا دیکھتے ہو جاؤ مرغی کے ڈربے میں مرغا بن کے بیٹھو۔ ضیاء الدین استاذ کو غصہ آیا مگر غصہ پی گئے ، باہر آتے ہی لینڈ کروزر ملی جسے پولیس نے روکا ہوا تھا ۔ اُس میں 5بندوں کے ساتھ اُن کے سامان کی جگہ تھی۔ ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ،گاڑی میں بیٹھ گئے ضیاء الدین استاذ نے کرایہ پوچھ لیا ۔ ڈرائیور اہلِ ذوق تھا اُس نے کہا چھ سواریوں کا کرایہ لوں گا۔ پرنسپل صاحب نے دو سواریوں کے برابر جگہ گھیر لیا ہے۔ ضیاء الدین استاذ بولے صرف جگہ گھیرا ہے ، وزن اتنانہیں ۔ ڈرائیور نے کہا پھر’’ ڈمپر ‘‘ کے حساب سے ان کا الگ کرایہ ہوگا۔ سفر اتنا خوشگوار تھا کہ تیمرگرہ تک ہمیں ہاتھ پاؤں دھونے کا خیال نہیںآیا ۔ تیمرگرہ میں جلدی سے دوسری گاڑی میں بیٹھ گئے ۔ چکدرہ پہنچ کرگاڑ ی رک گئی تو ہم نے بوٹ دھوئے، پاؤں دھوئے، جرابیں تبدیل کیں ۔ کپڑے تبدیل کئے اور سفر جاری رکھا۔ مانسہرہ میں ایک ہفتہ نگاہ صاحب کی صحبت میں ایسے گذرا جیسے گھنٹہ گذرا ہو۔ مولانا نقیب اللہ رازی ، فرید احمد رضا، عطاحسین اطہر ، ظہور الحق دانش، ناظم الدین صاحب اور قاضی عابد صاحب بھی ہمراہ تھے۔عنایت اللہ اسیر صاحب نے ہم رکابی سے ہم کو محظوظ کیا۔ ڈوڈھیال میں ہزارہ یونیورسٹی گئے، کانفرنس میں شریک ہوئے۔ رات گئے تک چترال کے طلبہ نے اپنے ہاسٹل میں ہماری تواضع کی ۔ غلام قادر،محمد نواز اور ا ن کے ساتھیوں نے سیتار کی محفل سجائی نگاہ صاحب نے ان کی ایسی دلجوئی کی کہ رات کے دو بج گئے۔ ایک دن بالاکوٹ گئے، سید احمد شہیدؒ اور شا ہ اسماعیل شہیدؒ کے مزارات پر حاضری دی ایک دن مانسہرہ میں مولانا حبیب اللہ مرحوم کے مدرسے کا دورہ کیا، لائبریری دیکھی ان کے مزار پر فاتحہ پڑھی نگاہ صاحب نے ہر جگہ بذلہ سنجی کے جوہر دکھائے، کبھی فرید احمد رضا سے کہتے ایک سال کا واقعہ ہے۔۔۔۔کبھی عطا حسین اطہر سے کہتے ایک سال کا واقعہ ہے ۔۔۔۔آخری دن ہمیں سویرے نکلنا تھا۔ رات اپنے کمروں کو جانے سے پہلے قاضی عابد صاحب سے کہا ضروری بات ہے وہ ہمہ تن گوش ہوئے تو بولے ’’ ای سال تہ واؤریتائے کی چھوچی راغیشٹی راہی بِک جم‘‘ قاضی عابد صاحب نے کہا تم نہیں سدھروگے۔ مرشد نے یہاں تک میرے سفر کی کہانی سنی تو ان کا شوق دوبالا ہوا کہنے لگے پھرشندور اور پھنڈر کا پروگرام کب ہوگا؟ میں نے کہا نگاہ صاحب کے ساتھ بات کرتے ہیں ۔ موسم کے آتے ہی مئی کے آخر میں یا جون کے ابتدائی دنوں میں پروگرام بناتے ہیں ۔ مرشد نے کہا اگر روزے آگئے؟ میں نے کہا روزے آگئے تو عید پر نگاہ صاحب کو لیکر شندور اور پھنڈر کے پکنک پر جائیں گے۔ مرشد نے مان لیا اور جاتے جاتے شرارتی انداز میں گنگنایا ’’ہمیں چھوڑ کر تم اکیلے نہ جانا۔۔۔‘‘ میں نے کہا سیف الدین سیفؔ کا ایک اور شعر ہے کہنے لگے ، عنایت ہو ،میں نے جواباََ گنگنایا
جو سنائی انجمن میں شبِ غم کی آب بیتی
کئی روکے مسکرائے کئی مسکرا کے روئے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔