سانحہ حویلیاں کی تحقیقاتی رپورٹ

……….محمد شریف شکیب……….
حویلیاں فضائی حادثے کی وجوہات کا پتہ چلانے کے لئے قائم سیفٹی انوسٹی گیشن بورڈ کی رپورٹ حادثے کے دو سال گذرنے کے بعد منظر عام پر آہی گئی ۔ تحقیقاتی رپورٹ میں حادثے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ المناک حادثے سے دوچار ہونے والے اے ٹی آر طیارے کے انجن نمبرون کے پاور ٹربائن بلیڈز ٹوٹ کر طیارے کے انجن میں چلے گئے تھے جس کی وجہ سے انجن بند ہوگیا اور طیارہ حادثے کا شکار ہوگیا۔ تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ حادثے سے پچیس روز قبل آخری بار طیارے کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔ اس وقت تک پاور ٹربائن بلیڈز دس ہزار چار گھنٹے چل چکے تھے اوراپنی طبعی عمر پوری کرچکے تھے۔ انہیں فوری طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ یہ بلیڈز دس ہزار گھنٹے سے زیادہ چل ہی نہیں سکتے۔ آخری جانچ پڑتال کے بعد بھی طیارہ 93گھنٹے تک پرواز کرتا رہا۔ جو شہری ہوا بازی کے فلائٹ اسٹینڈرڈ ڈپارٹمنٹ کی مجرمانہ کوتاہی ہے۔ جس نے مناسب جانچ پڑتال اور بوسیدہ ٹربائن بلیڈز کیضروری مرمت کے بغیر طیارے کو پرواز کی اجازت دیدی۔ تحقیقاتی رپورٹ میں قومی فضائی کمپنی کے سروس بلیٹن کی کارکردگی کو بھی ناقص قرار دیا گیا۔7دسمبر2016کو چترال سے اسلام آباد آنے والی پی آئی اے کی پرواز پی کے 661حویلیاں کے قریب پہاڑ سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگئی تھی۔ حادثے میں بین الاقوامی شہرت یافتہ نعت خوان جنید جمشید، ڈپٹی کمشنر چترال اسامہ احمد وڑائچ، ان کی اہلیہ، شیر خوار بچہ، کاروباری شخصیت حاجی تکبیر خان، گرم چشمہ کے ایک ہی خاندان کے چھ افراد، شہزادہ فرہاد عزیز، ان کی صاحبزادی، سلمان زین العابدین ،عمرا خان، محمد خان اورعملہ کے پانچ افراد سمیت 46افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ سیفٹی انوسٹی گیشن بورڈ کی تحقیقاتی رپورٹ سے قبل مختلف حلقوں کی طرف سے حادثے سے متعلق مختلف افواہیں پھیلائی گئیں۔ اپنے آپ اور اپنے چہیتوں کو بچانے کے لئے حادثے کی ذمہ داری جہاز کے پائلٹ اور معاون پائلٹ پر ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ ایس آئی بی کی رپورٹ نے کسی حد تک اصل حقائق سے پردہ اُٹھادیا ہے۔ حادثے کا شکار ہونے والوں کے خاندانوں میں ابھی تک صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ کسی کا سہاگ اجڑ گیا تو بہت سے معصوم بچے یتیم ہوگئے۔کوئی اپنے اکلوتے بیٹے سے محروم ہوگیا۔ تو کسی خاندان کو واحد کفیل چھن گیا۔ ذمہ داروں کا تعین کرنے سے اگرچہ حادثے کی فلم ریوائنڈ نہیں ہوسکتی۔ نہ ہی باپ، بھائی، بیٹے، بہن اور ماں سے بچھڑے اپنے پیاروں سے مل سکتے ہیں۔ لیکن متاثرین کو یہ تو پتہ چل گیا کہ غفلت اور کوتاہی کس کی تھی اور اس کا خمیازہ کتنے خاندانوں کو بھگتنا پڑا۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جن لوگوں نے جہاز کا پاور ٹربائن بلیڈز بروقت بدلنے میں دانستہ یا نادانستہ کوتاہی کی۔ انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایاجائے۔ انہیں معلوم تھا کہ پاور ٹربائن بلیڈز اپنی طبعی عمر پوری کرچکے ہیں اگر انہیں فوری تبدیل نہ کیا گیا تو جہاز کسی خوفناک حادثے کا شکار ہوسکتا ہے۔ جو لوگ جہاز کی مرمت کرتے ہیں انہیں ایک ایک پرزے کا پتہ ہوناچاہئے ۔یہ بین الاقوامی ہوابازی کا اصول ہے کہ پرواز سے قبل طیارے کی پوری جانچ پڑتال کی جاتی ہے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ حویلیاں حادثے کا شکار ہونے والے بدقسمت طیارے کے بلیک باکس کی ریکارڈنگ بھی اب تک منظر عام پر نہیں آئی۔ ایبٹ آباد کے اوپر سے پرواز کے دوران طیارے سے خوفناک آوازیں آنے کے ایک دو نہیں سینکڑوں ہزاروں لوگ گواہ ہیں۔ پائلٹ نے فنی خرابی پیدا ہونے کے بعد کاک پٹ
وائس ریکارڈر میں کچھ تو ریکارڈ کیا ہوگا۔ انصاف کی علم بردار تحریک انصاف کی حکومت سے پی کے سیکس سیکس ون کے شہداء کے لواحقین یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ حادثے کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی تاکہ آئندہ اس قسم کی مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ نہ ہو۔ اور کسی دوسرے خاندان پر وہ قیامت نہ ٹوٹے۔ تو سانحہ حویلیاں کے شہداء کے خاندانوں پر ٹوٹی ہے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔