محمد عیان! ہم آپ پہ نازاں ہیں۔..تحریر: حذیفہ خلیق کاکاخیل امام شاہی جامع مسجد چترال
یہ حقیقت ہے کہ مجھ سمیت بہت سارے اشخاص اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ ہماری نوجوان نسل تباہ ہوچکی ہے بس فیشن کا دلدادہ ، نقالی کا شائق ، کھیل و تفریح سے شاغف لیکن اخلاقی اقدار ، صفائی معاملات ، خوش گفتاری و راست بازی سے یکسر نا آشنا ہے۔ لیکن حقیقت حال ایسا نہیں بلکہ ہمارا معاشرہ ان نوجوانوں سے اب بھی بھرپور ہے جو ہماری آنکھ کا تارا بن سکتے ہیں جن کا وجود مسعود ہماری روشن مستقبل کا ضامن ہے ان کی اخلاقی قدریں اب بھی اس قدر بلند ہے کہ ہم بجا طور انہیں ہمارا فخر کہہ سکتے ہیں۔اب یہ ایک الگ سوال ہے ہے ایسا کیوں ہوا کہ ہماری نوجوان نسل کے بارے مین ناامیدی اور یاس پھیل چکی ہے اور ان کے بارے میں مثبت اور قابل فخر تذکرہ خال خال ہی سننے کا ملتا ہے۔بہر کیف ایک تازہ واقعہ پڑھیئے۔
کل مغرب کی نماز کے بعد ایک خوش پوش اور خوبرو نوجوان نے سلام کیلئے ہاتھ بڑھایا۔ میں اس وقت سنتوں کی ادائیگی کے بعد مصلے پر ہی موجود تھا ایک مقتدی سے کسی موضوع پر گفتگو چل رہی تھی۔ نوجوان کی سلام نے مجھے پوری طرف متوجہ کیا علیک سلیک کے بعد میں نے عرض کیا بیٹا خیریت! نوجوان نے بڑے ادب سے کہا استاذ جی کچھ پیسے ملے ہیں شاید یہاں کسی کے ہوں۔ میں نے پوچھا آپ نے گنا؟ جواب دیا میں نے گنا نہیں بس ملتے ساتھ ہی میں مسجد کے اندر آیااور آپ تک پہنچا چاہا لیکن آپ نے تکبیر کے ساتھ نماز کی ابتدا کی۔ اسلیے گننے کا موقع نہیں ملا۔ نوجوان نے کہا استاذ جی ! رقم کی مقدار زیادہ ہے آپ اعلان کریں شاید یہاں کسی کے ہوں۔ میں نے اعلان کا ارادہ کیا لیکن اس وقت اکثر و بیشتر نمازی یا تو جاچکے تھے یا کچھ سنتوں میں مصروف تھے بہرکیف میں نے اعلان کیا۔ لیکن مقتدیوں میں سے کسی نے جواب نہیں دیا اور اس نوجوان سے پیسے وصول کرکے میں اپنے کمرے کا رخ کیا۔ گننے پر اندازہ کہ رقم واقعی خطیر اور ان کا لب عید یوں گم ہونا ذہنی صحت کیلیے اس سے بھی پر خطر ہے۔معمولات سے فراغت کے کوئی آدھ گھنٹہ پر فیسوک کھولا تو ہمارے ایک عزیز مفتی صاحب کا تازہ اعلان پڑھنے کو ملا جو اس بابت تھا کہ چوک سے شاہی مسجد تک گمشدگی کا تذکرہ اور نیچے رابطہ نمبر درج تھا۔ میں نےرابطہ کیا اور ضروری تحقیق کے بعد رقم اس کے مالک کو مسجد بلا کر حوالہ کیا۔ مالک رقم ہماری مسجد کے چند گز کے فاصلے پر ایک کاروباری شخصیت کی ہیں انہوں نے نوجوان کی ایمانداری کو سراہا اور نوجوان کی حوصلہ افزائی کیلئے انعام کا اعلان کرتے ہوئے اپنے گم شدہ رقم ملنے پر شکروامتنان کے اظہار کے ساتھ واپس ہوا۔
آج مذکورہ مالک رقوم نے مطلع کیا کہ گولدور چترال کے رہائشی اس قابل فخر و دیانت دار نوجوان کا نام محمد عیان ہےاور صلاح الدین کے صاحبزادے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہا کہ میں نے جس انعام کا اعلان کیا تھا وہ بھی اس نوجوان کو دیدیا عیان نہ لینے پر بضد رہے لیکن میں نے باصرار انکی حوصلہ افزائی کی۔ محمد عیان سمیت دیگر ایماندار و باوقار نوجوانوں کی بہتات ہے لیکن ان کا اجلا کردار ہمشیہ پردہ خفا میں رہتا ہے اسلیے کہ ان نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کما حقہ نہیں ہوتی۔محمد عیان اپنے اس بلند کردارپر اور ان کے والد اس بہترین تربیت پر داد و تحسین کے مستحق ہیں۔ مثبت سوچ و عمل کی ترویج کیلئے ایسے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ناگزیرہے۔کسے نہیں معلوم کہ ہر سال چترال میں “فخر چترال” نام سے کتنی ایوارڈز کا ضیاع اور بے جا اور نا مناسب تقسیم عمل میں آتی ہے۔ میری خواہش ہے چترال کے سماجی اور ادبی حلقے اور انتظامیہ ہر بار نہ سہی کم ازکم سال بھر میں پیش آنے والے ایسے واقعات کا جائزہ لیں اور ہر سال کے آخر میں اعزازی اسناد سے نوازیں تاکہ دیگرنونہالاں میں نیکی کا جذبہ پروان چڑھے۔ محمد عیان! حقیقی “فخر چترال” آپ ہیں اور ہمیں آپ پہ بجا طور پرنازہے۔
وہی جواں ہے _____قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ ضرب ہے کاری