گندم کے نام پر جماعت اسلامی کی سیاست مسلے کو متنازعہ اور پیچیدہ بنا دیا۔ نوید الرحمٰن چغتائی
چترال (چترال ایکسپریس)نوید الرحمٰن چغتائی ایڈوکیٹ صدر پاکستان مسلم لیگ نواز چترال نے ایک بیان میں کہا ہے کہ گندم کے نام پر جماعت اسلامی کی سیاست مسلے کو متنازعہ اور پیچیدہ بنا دیا۔ گندم کی قیمت میں حالیہ ہوشرُبا اضافہ یقیناًغریب عوام پر ناقابل برداشت بوجھ ہےاس پر سیاسی دوکان چمکانے کے بجائے اس پر پیکیج لینے کے لیے مرکزی حکومت کے ساتھ رابطہ کاری اورسنجیدہ کوشش وقت کی اشد ضرورت ہے۔لیکن بد قسمتی سے گندم کی قیمت میں اضافے کو لیکر جماعت اسلامی چترال حقیقت کے منافی بیانیہ بنا کےانتخابی سیاست کو جاندار بنانے کی جدوجہد میں بھر پور طورپر مصروف ہے۔جماعت اسلامی خود کو عوام دوست اور غریب کا غم خوار ثابت کرنے کے ناکام کوشش میں مسلے کے حل کو پیچیدہ بنا دیا ہے اگر آپ چترال کے اتنے ہی غم خوار اور دکھ درد کو محسوس کرتے ہیں تو جب چترال سے گیس پائپ لائن پروجیکٹ کا خاتمہ ہوا کتنے روز ہڑتال کیے یا دھرنا دیا کیا یہ عوامی مفاد میں نہیں تھا چترال گرم چشمہ روڈ ،چترال بمبوریت روڈ چترال بونی شندور روڈ پر کام التوا کا شکار رہا تو کہاں کہاں احتجاجی دھرنے دیے ۔چکدرہ چترال روڈ کو سی پیک سے نکالے گئے تو آپ نے کیا کردار ادا کیا۔اب انتخابات قریب ہیں تو گندم کی قیمت میں اضافے کو لیکر خوب سیاست چمکانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔اب اس مسلے کو لیکر شروع دن سے ناکام سیاست کر رہے ہیں آپ اور آپ کے منتخب ایم این اے کو یہ بھی معلوم نہیں کہ سبسڈی تھی کہاں اور ختم کیسے ہوئے ۔ آپ کے محترم ایم این اے اسمبلی فلور پر سبسڈی خاتمہ کے خلاف پر جوش انداز میں روایتی چیخ و پکار کے ساتھ قرارداد جمع کی تو دوسرے روز جواب آیا کہ چترال کے کوئی سبسڈی موجودہ حکومت نے نہ ختم کی ہے نہ پہلے سے موجود تھا بلکہ کرایے کی مد میں جو سبسڈی تھی وہ اب بھی بحال ہے تو پورا چترال شرمندگی سے شرمسار ہوا کہ چھ لاکھ آبادی کے منتخب ایم این اے کسی معتبر معلومات کے بے غیر محض سوشل میڈیا کے خبروں پر انحصار کرتے ہوئے قرارد جمع کر رہے ہیں۔ ساتھ اسمبلی فلور پر یہ کہنا کہ جماعت اسلامی احتجاجی جلسوں کی سرپرستی کر رہی ہے اس مسلے کو طول دینے اور سیاسی مفاد حاصل کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے ۔۔دوسرے اگر آپ اتنے مخلص تھے تو لوئیر چترال کے پولو گراونڈ میں عوام کی جم غفیر پولو میچ دیکھنے کے لیے کئی روز موجود تھے ایک روز اسے بند کرنا چاہیے تھا۔ دوران احتجاج چیلم جوشی فیسٹیول بخیرو و خوبی انجام پذیر ہوئے آپ خاموش تماشائی بنے بیٹھے۔اپ کے ایم این اے پانچ سالوں میں چیخنے چلانے کے علاوہ اگر چترال کے لیے کچھ کیا ہے تو بتا سکتے ہیں۔48000 ہزار سے زیادہ ووٹ چخنے چلانے کے لیے نہیں بلکہ مسائل حل کرنے کے لیے عبد الاکبر کو دیے تھے۔اب اگر کوئی عوام کی ہمدردی ہے تو مرکزی حکومت سے مسلہ کو حل کرانے کے لیے سنجیدہ جدوجہد کی ضرورت ہے مہنگائی کا یہ بوجھ صرف چترال کا نہیں پاکستان بھر کا مسلہ ہے گندم کی قیمت خوازہ خیل سے بروغل تک ایک جیسا ہے البتہ چترال کے مخصوص حالات اور مجبوری کے پیش نظر خصوصی پیکیج لینے کی جدوجہد کی ہم سب بھر پور حمایت کرتے ہیں۔شرپسندی ،روڈ بلاک، جلاو گراو مسلے کا حل ہر گز نہیں۔