مفت علاج پروگرام کا ناقدانہ جائزہ…محمد شریف شکیب

گذشتہ ایک سال کے دوران خیبر پختونخوا کے دس بڑے سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں صحت انصاف کارڈ کے تحت مریضوں کے مفت علاج پر ہونے والے اخراجات کی تفصیل سامنے آگئی۔ صحت کارڈ سے سب سے زیادہ صوبے کے سب سےبڑےطبی مرکز لیڈی ریڈنگ ہسپتال نے فائدہ اٹھایا۔ایل آر ایچ کو دو ارب 33 کروڑ 40 لاکھ کی آمدنی ہوئی۔ دوسرے نمبر پر پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی نے دو ارب 70 لاکھ روپے کمائے۔حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کو تقریبا ڈیڑھ ارب کی آمدنی ہوئی۔نجی ہسپتالوں میں ایم ایم سی نے سب سے زیادہ 94 کروڑ 30 لاکھ، پمز نے 93 کروڑ 90 لاکھ، ارنم نے 90 کروڑ 40 لاکھ، فوجی فاونڈیشن نے 81 کروڑ 10 لاکھ، پاک میڈیکل نے 67 کروڑ 80 لاکھ، کویت ہسپتال نے 61 کروڑ 50 لاکھ اور آر ایم آئی نے 47 کروڑ 90 لاکھ روپے صحت کارڈ سےکمائے۔سرکار کے زیر انتظام چلنے والے ایم ٹی آئی ہسپتالوں کو صحت کارڈ سے ہونے والی آمدنی سے اپنی طبی سہولیات مزید بہتر بنانے میں مدد ملے گی اسی طرح نجی ہسپتالوں کو بھی اضافی آمدنی کے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تشخیص اور علاج کا معیار بہتر بنانے اور مریضوں کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے۔صحت کارڈ پر مفت علاج حکومت کا انقلابی منصوبہ ہے کمر توڑ مہنگائی کے اس دور میں ایک غریب ،متوسط طبقے اور تنخواہ دار طبقے کے لئے علاج کروانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ایسی صورتحال میں جب ایک غریب خاندان کو دس لاکھ تک مفت علاج کی سہولت ملتی ہے تو یہ ایک نعمت سے کم نہیں۔مفت علاج میں امراض قلب، گردوں کی بیماری، جگر کی پیوند کاری اور پیچیدہ آپریشنز بھی شامل ہیں۔ مفت علاج کے اس پروگرام میں کچھ بے قاعدگیوں کی بھی نشاندہی ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیسے بٹورنے کے لئے معمولی نوعیت کی بیماری میں مبتلا مریضوں کو بھی آپریشن تجویز کئے جاتے ہیں۔ صحت کارڈ کے پیسوں میں ڈاکٹروں، نرسوں، پیرا میڈیکس، لیبارٹریوں، میڈیکل سٹورز اور دیگر لوگوں کو کمیشن بھی دیا جاتا ہے۔ اگر ان سوراخوں کو بند کیا جائے تو کروڑوں کی بچت ہوسکتی ہے جو غریبوں کے علاج پر خرچ کی جاسکتی ہے۔ انسانی جانوں کو بچانا شعبہ طب کا ایک مقدس فریضہ ہے اسے منافع بخش کاروبار بنانا اخلاقی اور مذہبی نقطہ نظر سے درست نہیں۔مفت علاج پر خرچ ہونے والی رقم عوام کے ٹیکسوں سے ادا کی جاتی ہے۔ اس کی ایک ایک پائی قوم کی امانت ہے۔جس میں کسی بھی نام سے خیانت نہ صرف ناقابل قبول بلکہ ناقابل برداشت ہے۔ مفت علاج پروگرام میں رکاوٹ پیدا کئے بغیر اس مقدس امانت کن کن مدوں میں خرچ کیا گیا اس کی شفاف تحقیقات ہونی چاہئے تاکہ قوم کی اس امانت کو نہایت دیانتداری اور احتیاط کے ساتھ عوامی بہبود پر ہی خرچ کیا جاسکے۔محکمہ صحت اور ہیلتھ کیئر کمیش کو بھی اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ صحت کارڈ سے سرکاری اور نجی ہسپتالوں کو جواضافی آمدنی حاصل ہوئی ہے اسے ہسپتالوں کی حالت بہتر بنانے، مریضوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات میسر کرنے، بیماریوں پر تحقیق، ان کے سد باب اور صحت کا معیار بہتر بنانے پرخرچ کیاجارہا ہے یا یہ بھاری رقم چند لوگوں کی جیبوں کو بھرنے کے لئے ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔