داد بیداد…میرا استاد میر قوت خان مر حوم…ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
وہ پشاور کے دبنگ مجسٹریٹ سرفراز خان کے طرح فرسٹ کلا س مجسٹریٹ تھا قانون کے معا ملے میں کسی سے رو رعایت نہیں کر تا تھا مگر قانون کو حر کت میں لا نے سے پہلے دھیمے اور نر م وملا ئم لہجے میں لو گوں کو قانون پر ایک تقریر کرتا اور سمجھا تا تھا کہ دیکھو قانون کا راستہ ایسا ہے قانون کے ہاتھ ایسے ہیں قانون کی بینائی کمزور ہے قانون چہروں کو نہیں پہچانتا نا موں کو نہیں پڑھتا قانون کے کا ن بہرے ہیں قانون ماں باپ، عزیز، دوست،خان، چوہدری اور نواب کی بات نہیں سنتا اس کے پیشے کے ساتھ وابستہ دوست اور احباب ہمیشہ کہتے تھے کہ قانون پر لیکچر جھا ڑ کر اپنا وقت ضا ئع مت کرو سیدھا سیدھا ڈنڈا چلاؤ جواب میں وہ کہتا تھا میری ملا زمت ایک استاد کی حیثیت سے شروع ہوئی تھی میں کمرہ جما عت میں بھی ڈنڈے کا استعمال کرتا تھا مگر سب کو سمجھا نے کے بعد ڈنڈا ہاتھ میں لیتا تھا یہ میری تربیت کا حصہ اور میری فطرت ثانیہ بن چکی ہے میر قوت خان مرحوم کی کہا نی میں 70سال پہلے کے پہا ڑی گاوں میں بچپن گذار کر درخت کے سایے میں الف با پڑھنے سے تعلیمی سفر کا آغاز کرکے ایم اے انگلش کے لئے پشاور کے پرو فیسرٹھا کر دا س کی کلا س میں ملٹن اور ورڈز ورتھ کی نظمیں ترنم سے پڑھنے والے اعلیٰ تعلیم یا فتہ استاد اور کلا س ون مجسٹریٹ کی کہانی ہے اس کہانی میں اونچ نیچ بہت ہیں اتار چڑھاؤ کی حد نہیں تجسس کا حساب نہیں اور کہا نی انجام کو پہنچتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے خواب تھا جو دیکھا، جو سنا افسانہ تھا میر قوت خان مر حوم 12جنوری 1945کو سابق ریا ست چترال کے خوب صورت لیکن دشوار گذار گاوں پر کو سب میں شگو نے قبیلہ کے متمول کا شتکار غزینہ خان کے ہاں پیدا ہوئے جب ان کی عمر 8سال ہوئی تو ریا ست کا پرانا نظام ختم ہوا، مشاورتی کونسل کے انتخا بات ہوئے سکول کھو لنے اور بچوں کو پڑھا نے کے لئے تر غیبات کا اعلان ہوا گاوں کے معزز قبیلے یغشے کی مخیر شخصیت شکور رفیع استاد نے اپنی جا گیر کے اندر دو کمرے تعمیر کر کے سکول کھولا تو مشاورتی کونسل نے استاد کے لئے تنخوا ہ اور سکول کے لئے سرکاری سند کی منظوری دیدی لیکن کمرے تعمیر ہونے میں وقت لگتا تھا استاد شکور رفیع صاحب نے درخت کے سایے میں میر قوت خان کی عمر کے بچوں کو جمع کرکے پڑھانا شروع کیا دو ماہ بعد مشاورتی کونسل کی طرف سے بلیک بورڈ، چاک، رجسٹر اور کرسی جیسی بنیا دی ضروریات مل گئیں اگلے سال کمرے بھی تیار ہوئے اور امتحان بھی لیا گیا گاوں سے پرائمیری پاس کر کے مڈل سکول مستوج میں داخل ہوئے آٹھویں کے امتحان میں امتیازی نمبر آئے تو وظیفہ مل گیا اور سٹیٹ ہا ئی سکول چترال سے آپ نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اس وقت کے وزیر تعلیم نے میٹرک کی کلاس میں آکر دور دراز دیہات سے آکر ہاسٹل میں رہنے والے طلباء سے کہا تھا کہ تم نے مشقت سے تعلیم حاصل کی ہے امتحان کا نتیجہ آئے اور جس کے اچھے نمبر آئینگے میں ان کو استاد مقرر کرکے دیہات کے سکولوں میں بھیجوں گا، نتیجہ آیا تو وزیر تعلیم نے گھر سے بلا کر آپ کو استاد مقرر کیا اور سور لاسپور کے نئے پرائمیری سکول میں بھیجا یہاں وہی صورت حال تھی جو 10سال پہلے ان کے اپنے سکول کی تھی کمرے ابھی تعمیر نہیں ہوئے تھے گرمیوں میں درخت کے نیچے اور سر دیوں میں کسی کا مکان خالی کرکے وہاں سکول لگا یا جاتا تھا ہماری کلاس میں کبھی محمد یوسف کو اور کبھی محمد رسول کو ما نیٹر مقرر کرتے، درست تلفظ اور خوش خط لکھا ئی سکھا تے ان میں جو کمزور ی کرتا اس کو ندی کے یخ بستہ پانی میں کھڑا کر کے سزا دیتے اس نو عیت کی سزا بھگتنے والوں کو پہلی بار معلوم ہوتا تھا کہ پانی ایک نعمت ہی نہیں، ایک عذاب بھی ہے آج کل کے سیلا بوں نے اس کو درست ثابت کیا ہے میر قوت خان استاد میرے والد مولانا محمد اشرف کا دوست بنا تو معلوم ہوا کہ وہ کتا بوں کا عاشق ہے 1964اور 1965میں وہ تاریخ چترال کی جلد لیکر آتا تھا با نگ درا بھی لاتا تھا، مخزن ِ اخلا ق اور بہشتی زیور، پڑھنے کے لئے لے جا تا تھا ڈاک میں ایشیاء،آئین، کوثر اور ترجمان القرآن کے پر چے آتے تو ڈاک خانے سے اٹھا کر لے آتا بڑے بھی پڑھتے مجھے بھی پڑھنے کی تر غیب دیتے پرائیویٹ امتحانات کی تیا ری کے لئے اس نے چترال یا پشاور کے مرکزی مقام پر نوکری کی تلا ش شروع کردی اور ضلعی انتظا میہ میں اس کو سروس مل گئی مگر اس کے من کا استاد سدا استاد ہی رہا، اس کے علمی سفر کی روداد بھی دلچسپ ہے پرائمیری سکول میں استاد شکور رفیع نے دینیات اور خطبات کے مطا لعے سے اس کو پڑھنے کی دعوت دی یہ عادت ہائی سکول میں اور پختہ ہوگئی جہاں غلا م مصطفیٰ استاد نے ان کو قرآن فہمی کے بنیادی اصول، الجہاد فی الاسلام، رسائل و مسائل وغیرہ پڑھنے کے لئے دیدیے پھر وہ اسلا می لٹریچر کا شیدائی ہوگیا اس نے بڑی محنت سے ایف اے اور بی اے پا س کرنے کے بعد ایم اے انگلش کی تیا ری شروع کی اسناد میر قوت خا ن مر حوم کو گاون کے لو گ تحصیلدار کے نا م سے جا نتے تھے ان کا قبیلہ شگو نے چترال کے زمین زاد یعنی بومکی یا (Aborigins) کے زمرے میں آتا ہے، آپ نے گاوں کی فلا ح و بہبود اور قبیلے کی معاشی ترقی کے لئے نو جوانوں کی اچھی سر پرستی کی عمر کے آخری حصے میں لوئیر چترال کے گاوں ڈوم شو غور میں سکو نت پذیر ہوئے تھے 16اگست 2023کو 78سال کی عمر میں وفات پائی اور اپنی زر خرید قبر ستان میں مد فون ہوئے انہوں نے اپنی اولاد کی علمی اوراخلا قی تر بیت میں کوئی کسر نہیں رہنے دی ان کے چار بیٹے محمد معراج الدین، ضیاء لاسلام، مصباح ا لاسلام اور خالد منصور باروز گار ہیں پا نچواں بیٹا میر صفدر خان بی ایس کا طا لب علم ہے ایک بیٹی بھی بی ایس میں پڑھ رہی ہے ان کی مطمئن روح عالم برزخ میں یہی دعا مانگ رہی ہو گی
پھلا پھو لا رہے یا رب چمن میری اُمیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پا لے ہیں