گلیشئرز اور گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے سے آنے والی سیلابوں کے حوالے سے بین الاقوامی کانفرنس کا نعقاد
اسلام آباد(نمائندہ چترال ایکسپریس)ماہرین کے مطابق دنیا بھر کے گلیشئرز اور خصو صاً پاکستان میں گلیشئرز بہت تیزی سے پِگل رہے ہیں۔ ان گلیشئرز کے پگلنے سے جھیلیں بنتی ہیں اور جھیلوں کے پھٹنے سے تباہ کن سیلاب نمودار ہو تے ہیں۔ پاکستان میں گلیشئرز اگر مو جودہ رفتار سے پگلتے رہے تو خدشہ ہے کہ اس کے تمام گلیشئرز سن 2035 ء تک ختم ہو جائیں گے۔ پاکستان میں صاف پانی کی کل 70فیصد حصہ گلیشئرز سے آتا ہے۔ جو گھریلو، صنعتی اور زرعی ضروریات کو پورا کر تاہے۔ پاکستان میں شمال میں واقع ان گلیشئرز کے ختم ہونے کا مطلب صاف پانی کے ذرائع میں 70فیصد کمی ہے۔
ان گلیشئرز کے تیزی سے پگلنے اور معدوم ہونے کا ایک بڑاوجہ تیزی سے رونما ہونے والی مو سمی تغیرات ہیں۔ درجہ حرارت میں تیزی سے اضافے کے سبب گلیشئرز تیزی سے پگل رہے ہیں۔ ان مو سمیاتی تغیرات کو سمجھنے اور آگے کا لائحہ عمل مرتب کرنے کیلئے قومی اور بین الا قوامی ماہرین کا دو روزہ کانفرنس اسلام آباد میں منعقد کیا گیا ۔ یہ کانفرنس وزارت مو سمی تبدیلی کے پراجیکٹ ، پاکستان گلاف پراجیکٹ ،کے زیر اہتمام منعقد ہو ا۔پاکستان گلاف پراجیکٹ حکومت پاکستان ، یو این ڈی پی پاکستان اور اڈپٹیشن فنڈکے مالی اور تکنیکی تعاون سے عمل میں لایا جا رہاہے۔ اور اس کا مقصد گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے سے ہونے والی تباہ کاریوں کو کم سے کم کرنا ہے۔
کانفرنس میں چین، امریکہ، نیڈر لینڈ، سوئزر لینڈ، نیوزی لینڈ، جرمنی، تھائی لینڈ، نیپال، بھوٹان، اٹلی، افغانستان اور پاکستان کے ماہرین ماحولیات و ارضیات نے شرکت کی۔ کانفرنس کا مقصد مو جودہ حالات اور واقعات کے تنا ظر میں مستقبل کیلئے لائحہ عمل مرتب کرنا تھا۔ کانفرنس کے دوران مختلف ممالک کے نمائندوں نے اپنے مقالے اور تجربات پیش کیے۔ کانفرنس میں وزارت موسمی تغیرات کے اعلیٰ حکام اوریو این ڈی پی کے کنٹری ڈائریکٹر نے بھی شرکت کی۔
اس مو قع پر خطاب کر تے ہوئے وزارت مو سمی تغیرات کے سیکریٹری عارف احمد خان نے کہا کہ مو جودہ حالات کے تناظر میں یہ امر واضح ہو گیا ہے کہ دنیا کے مو سمی حالات بڑے تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ ان حالات کا ادراک کرتے ہوئے باہمی تعاون کو فروغ دیں۔ مو سمی تبدیلی سے منسلکہ آفات کے تدارک کیلئے ضروری ہے کہ ہم ایسے پائیدار اور قابل عمل سرگرمیوں کو فروغ دیں کہ جس سے ان تباہ کا ریوں کو کم سے کم کیا جا سکے۔ اگر ہم نے اب بھی ان حالات و واقعات کو سمجھنے اور عمل کرنے میں تا خیر کی تو تباہی کا عمل مزید تیز ہو جائے گا۔ مزید تاخیر سے یہ گلیسائی جھیلیں بڑے تباہی کا پیش خمیہ بن سکتے ہیں۔ جس سے ہمارے جان ومال ترقیات ڈھانچے کو نا قابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مو سمیاتی تبدیلی ایک ہمہ جہت عمل ہے اور اس سے نبرد آزما ہونے کیلئے بھی ایک ہمہ جہت لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ انھوں نے پاکستان گلاف پراجیکٹ کے سرگرمیوں کو سراہتے ہو ئے کہا کہ پراجیکٹ نے مو سمیاتی تبدیلیوں اور گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے سے پیدا ء ہونے والی خطرات کو کم کرنے کیلئے اپنے محدود وسائل کے اندر رہتے ہوئے اچھے عملی کام کیے۔لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے جس کیلئے وسائل اور بہت سارا وقت درکار ہے۔ اس سلسلے میں وزارتِ مو سمی تغیرات وسائل کی دستیابی کیلئے کوششیں کر رہا ہے۔ اور انشاء اللہ ہمیں اس میں بہت جلد کامیابی حا صل ہو گی۔پراجیکٹ کا دوسرا فیز بھی بہت جلد شروع کیا جا ئے گا۔ تاکہ پاکستان کے شمال میں واقع مزید وادیوں میں اس پراجیکٹ کو فروغ دیا جا سکے۔
کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے یواین ڈی پی کے کنٹری ڈائریکٹر، مارک انڈرے نے کہا کہ مو سمیاتی تبدیلی اب ایک حقیقت بن چکا ہے جس کا عملی ثبوت پاکستان کے شمالی علاقوں میں روز بہ روز رونما ہونے والے گلیشیائی سیلاب ہیں ۔ ان سیلابوں کی وجہ سے مقامی با شندوں کے جان و مال کوشدید خطرات درپیش ہیں۔ ان خطرات سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے مربوط کو ششیں کی جائیں اور قا بل عمل سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے۔ تمام ادارے بشمول حکومت بدلتے ہو ئے موسمی حالات کے تقا ضوں کو سمجھے اور سنجیدہ اقدامات کرے۔ بصورت دیگر تباہی اور بربادی کا دائرہ مزید وسیع ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان گلاف پراجیکٹ کے طرز پر مزید پراجیکٹز شروع کیے جائیں اور حکومتی سطح پر پالیسی سازی کی جائے۔ تاکہ ممکنہ گلیشیائی سیلابوں سے درپیش خطرات کو کم سے کم کیا جائے۔
کانفرنس کے اختتامی دن سے محترمہ شائستہ ملک ، ممبر قومی اسمبلی و ممبر اسٹنڈنگ کمیٹی برائے مو سمی تبدیلی اور آفتاب احمد مانیکا، جوائنٹ سیکریٹری ، وزارت مو سمی تغیرات نے خطاب کیا۔ انھوں نے کہا اگرچہ پاکستان دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہت معمولی مقدار میں زہریلی گیسز، جو مو سمی تغیرات کا سبب بنتے ہیں، اخراج کرتا ہے۔تاہم پاکستان مو سمی تغیرات اور اس سے منسلکہ آفات سے متا ثر ہونے والے دس مما لک میں سر فہرست ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ بین الاقوامی برادری ان آفات سے ہونے والی تباہ کاریوں کو کم سے کم کرنے کیلئے آگے آئے اور پاکستان کی تکنیکی و مالی معاونت کرے۔ ان مو سمی تغیرات کے با عث آج پاکستان کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ گلیشیائی سیلاب گذشتہ ایک دہائی میں بڑے آفت کی صورت میں وقوع پذیر ہو ئے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان سیلابوں کے تعداد و تباہ کا ری میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ ان مسائل سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے قومی، علاقائی اور بین الاقوامی تعا ون کو مزید مستحکم کیا جائے تاکہ آنے والی نسلوں کو رہنے اور زندگی گذارنے کا ایک متوازن دنیا میسر ہو۔