داد بیداد۔۔۔امتحان ہی امتحان۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

ایسی خبریں آرہی ہیں کہ انسان چکرا جا تا ہے ایک عام شہری کا دما غ گھوم جا تا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اور کیوں ہو رہا ہے امتحا ن کو ہی لے لیں قوم کا امتحا ن جا ری ہے، مسلمانوں کا امتحا ن الگ سے چل رہا ہے پھر میٹر ک کے امتحا نات آگئے خیبر پختونخوا میں ہر روزسپرنٹنڈنٹ اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پکڑے جا رہے ہیں ان کو فارغ اور بلیک لسٹ کیا جا رہا ہے پا ڑہ چنا رمیں ایک سپرنٹنڈ نٹ قا تلہ حملے میں زخمی ہو گئے ان کا ڈرائیور ما را گیا، کو ہاٹ بورڈ کے امتحا نا ت اگلے احکا مات تک ملتوی کر دیے گئے دوسری طرف یہ خبر گردش کررہی ہے کہ پا کستانی طلبہ کے والدین اولیول (میٹرک) کے امتحا نات میں بچوں اور بچیوں کو بٹھا نے کے لئے 21ارب روپیہ غیر ملکی یو نیو رسٹیوں کو ادا کر تے ہیں یہ امتحا نات سال میں دو بار ہو تے ہیں جی آر ای، آئی جی ایس جی وغیرہ کے امتحا نات اس کے علا وہ ہیں اے لیول (ایف ایس سی) کے امتحا نات کی فیسوں کو ملا کر ہر سال کم از کم 80ارب روپیہ ملک سے ڈالر میں تبدیل ہو کر با ہر جا تا ہے گویا اس ہفتے کے کرنسی ریٹ کے حساب سے کم و بیش 29کروڑ ڈالر کی رقم بنتی ہے دوسری طرف قومی اسمبلی سکرٹریٹ سے خبر آئی ہے کہ پا رلیمنٹ نے پا کستان میں کیمبرج کا نصاب پڑ ھا نے کی منظوری دی ہے ان خبروں کو یکجا کر کے اس کا ملغوبہ سامنے رکھیں تو بھیا نک تصویر سامنے آتی ہے اس تصویرپر غور کرنے سے جو نتیجہ سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ آزادی کے75سال گذر گئے ہماری قوم نے 1972تک کوئی تعلیمی پا لیسی نہیں بنا ئی 1972سے لیکر 2009تک 5تعلیمی پا لیسیاں بن گئیں 1979اور 2009کی پا لیسیاں فو جی حکمرانوں نے بنائیں، 1992اور 1998کی پا لیسیاں عوام کے منتخب نما ئیندوں نے بنائیں مگر کسی بھی تعلیمی پا لیسی نے قوم کو علم و ادب اور تحقیق و تدقیق کا راستہ نہیں دکھا یا نصاب میں الجھن ہی رہی،تعلیم و تر بیت کے نظام میں کوئی بہتری نظر نہیں آئی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ امتحا نی نظا م میں اصلا ح کا کوئی پہلو کبھی دیکھنے میں نہیں آیا یہ 1985ء کا واقعہ ہے چترال کے ایک نجی سکول کے لئے بر طا نیہ سے رضا کار ما ہر تعلیم رچرڈ ایلی سن کو بونی بھیجا گیا انہوں نے اپنی آمد کے ایک سال بعد ولینٹئر سروسز اور سیز (VSO) کو رپورٹ بھیجی، رپورٹ کی تمہید میں انہوں نے ہمارے نظام تعلیم کا خا کہ پیش کر تے ہوئے لکھا کہ پا کستان میں گیارہ قسم کے الگ الگ سسٹم کا م کر تے ہیں مذہبی تعلیم کے 5سسٹم ہیں جن میں ہر مسلک نے سائنس اور انگریزی کی تعلیم ممنوع ٹھہرایا ہے انگریزی کی تعلیم کے 6الگ الگ سسٹم ہیں سب سے نچلی سطح پر سرکاری سکولوں کا سسٹم ہے، اس کے بعد متوسط طبقے کے لئے سستے پرائیویٹ سکول اور کالج ہیں، تیسرے درجے میں امیر لو گوں کے لئے منا سب فیس والے پرائیویٹ ادارے ہیں چوتھے درجے میں کا نونٹ سکولوں کا سسٹم ہے پا نچویں در جے میں امیر طبقے کے لئے بہت مہنگے سکولوں کا سسٹم ہے چھٹے نمبر پر ایسے تعلیمی ادارے ہیں جو انتہا ئی ما لدار لو گوں کے لئے مخصوص ہیں ان میں سے بعض ادارے بر طانوی یو نیورسٹیوں سے اولیول اور اے لیول والے سر ٹیفیکیٹ بھی دلواتے ہیں اگر کوئی دانشور باقاعدہ تحقیق کر ے تو 2023میں مزید درجہ بندی بھی ہو سکتی ہے مو جو دہ صورت حال میں ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہماری حکومتیں تعلیمی نظام کو چلا نے میں نا کام ہو گئی ہیں اس وقت ملک کے اندر آغا خان یو نیورسٹی ایجو کیشن بورڈ نے او لیول اور اے لیول کے طرز کا سسٹم متعارف کرایا ہے جو کامیا بی سے ہمکنار ہوا ہے اس سسٹم کے تحت انٹر میڈیٹ پا س کر نے والے طلبہ کو دنیا بھر کی یو نیورسٹیوں میں سر ٹیفیکیٹ کی بنیاد پر داخلے ملتے ہیں اس تجربے کو سامنے رکھ کر پا کستان کی چار دیگر یو نیور سٹیوں کے ساتھ با مقصد مذاکرات اور سمجھوتہ کر کے اگر تعلیمی نظا م آئی بے اے کر اچی، لمز لا ہور، نسٹ اسلا م اباد، غلا م اسحاق خا ن یو نیورسٹی خیبر پختونخوا اور آغا خا ن یو نیورسٹی کراچی کو حوالہ کیا جا ئے تو کمرہ جما عت کے اندر تعلیم و تدریس اور امتحا نات میں شفا فیت کا اعلیٰ معیار قائم ہو گا یہ بات طے ہو چکی ہے کہ ہماری حکومت تعلیمی نظام کو درست نہیں کرسکتی اس پر مزید وقت ضا ئع نہیں کر نا چا ہیے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔