قدرتی حسن کا شاہکار پریوں کا نشیمن۔۔۔محمد شریف شکیب

ادنیا کے بلند ترین قدرتی سٹیڈیم شندور میں تین روزہ میلے کی تیاریاں عروج پر ہیں جنگل میں منگل کا سماں ہے۔سطح سمندر سے ساڑھے بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع شندور کا پولو گراونڈ جسے مقامی زبان میں ماحوران پاڑ یعنی پریوں کا نشیمن کہا جاتا ہے۔قدرتی حسن کا شاہکار ہے پولو گراونڈ کے ساتھ ہی شندور کی نیلگوں جھیل ماحول کو پراسرار بناتی ہے۔ ہر سال شندور میلہ دیکھنے کے لئے اندرون اور بیرون ملک سے بڑی تعداد میں سیاح چترال اور گلگت بلتستان آتے ہیں۔ یہاں چترال اور گلگت بلتستان کی ٹیموں کے درمیان فری سٹائل پولو کے مقابلے انفرادیت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔پولو کو کھیلوں کا بادشاہ اور بادشاہوں کا کھیل قرار دیا جاتا ہے۔ اس کھیل کے لئے گھوڑے پالنا ایک مہنگا مشعلہ ہے۔ چترال اور گلگت کے پولو شائقین نے صدیوں سے رائج اس کھیل کو اپنے تیئن زندہ رکھا ہوا ہے۔ شمالی علاقہ جات میں پولو کے کھیل کو زندہ رکھنے اور اسے فروغ دینے میں چترال سکاوٹس کا بھی اہم کردار ہے۔شندور کے علاوہ چترال میں ایسے نصف درجن قدرتی سٹیڈیم موجود ہیں جہاں کھیلوں کے مقابلے کروا کر سیاحت کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ ان میں وسیع و عریض بے آب و گیاہ میدان قاق لشٹ بھی شامل ہے۔ دس ہزار فٹ کی بلندی پر واقع قدرتی سٹیڈیم بریس جنالی بھی پولو، فٹ بال اور دیگر کھیلوں کے لئے آئیڈیل جگہ ہے۔یہ دراصل اپرچترال کے گاتاریخی گائوں لون کی چراگاہ ہے۔ بریس جنالی سے کچھ فاصلے پر لون اور بروم اویر کے درمیان بیلوں کی لڑائی کے مقابلے بھی ہر سال جون کے آخری ہفتے یا جولائی کے پہلے ہفتے مین ہوتے ہیں۔ماضی قریب تک دونوں علاقوں کے لوگ بیلوں کا مقابلہ ختم ہونے کے بعد بریس جنالی آکر فٹ بال میچ کھیلتے تھے۔ اگر ضلعی انتظامیہ بریس جنالی میں سالانہ میلے کا اہتمام کرے تو سیاحوں کو روایتی بیلوں کی لڑائی دیکھنے کے ساتھ پولو، فٹ بال، والی بال ، رسہ کشی، بزکشی اور کرکٹ کے مقابلے دیکھنے کا بھی موقع مل سکتا ہے۔شندور میلہ چترال کے لئے نیک شگوں رہا ہے۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے لواری ٹنل کی تعمیر کا یہاں اعلان کیا اور 1976میں منصوبے پر تعمیراتی کام شروع ہوا تاہم 1977میں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوتے ہی یہ اہم منصوبہ بھی منسوخ کردیا گیا۔2005میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے شندور میں ہی لواری ٹنل پر کام دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا۔اور اس پر کام بھی شروع کروادیا۔ 2009میں سرنگ مکمل ہوگئی یوں چترال کا سال بھر ملک کے دیگر حصوں سے رابطہ بحال ہوگیا۔ساڑھے چودہ ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلی ہوئی وادی چترال کو انتظامی لحاظ سے دو اضلاع میں تقسیم کرنے کا مطالبہ بھی شندور میلے کے موقع پر کیاگیا۔اور پھر یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوگیا۔ اس بار چترال کی تمام سیاسی جماعتوں نے شندور کے سپاسنامہ میں گندم پر سبسڈی بحال کرنے اور بجلی کی مقامی پیداوار رعایتی نرخوں پر فراہم کرنے کے مطالبات سرفہرست ہیں۔ چترال دو پہاڑیوں کے درمیان ایک وادی ہے ارندو سے لے کر بروغل تک دریا کے آر پار نسبتا ہموار زمین کو آباد کرکے لوگوں نے وہاں رہائش اختیار کی۔ چترال کی بمشکل چار فیصد زمین زرعی مقاصد کے لئے بروئے کار لائی جاتی ہے۔جو مقامی ضروریات کے صرف دس فیصد کے لئے کافی ہے دونوں اضلاع کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لئے 90فیصد اجناس صوبے اور ملک کے دیگر حصوں سے لائے جاتے ہیں۔ قائد عوام کے دور میں ہی چترال کو گندم پر سبسڈی دی گئی تھی۔ مختلف علاقوں میں اناج کے گودام بنائے گئے تھے۔پچاس سال تک چترال کے عوام اس سبسڈی سے استفادہ کرتے رہے۔ سو کلو گرام گندم کی بوری سبسڈی کے ساتھ لوگ پانچ ہزار روپے میں خرید کر اپنی ضروریات آسانی سے پوری کرتےتھے۔ حال ہی میں حکومت نےچترال کو گندم پردی جانے والی سبسڈی ختم کرنے کا اعلان کیا اور پانچ ہزار والی گندم کی بوری کی قیمت بارہ ہزار روپے مقرر کردی گئی۔چترال میں صوبائی محکموں کےچند دفاتر کےعلاوہ سکاوٹس، پولیس اورمحکمہ تعلیم میں لوگوں کوروزگار کے مواقع ملتے ہیں یہاں کوئی انڈسٹری نہیں ہے۔ 70فیصد لوگوں کا انحصار کھیتی باڑی پر ہے۔گذشتہ چند سالوں سے کمرتوڑ مہنگائی نے لوگوں کی قوت خریدختم کردی ہے۔ ان حالات میں گندم اڑھائی گنا زیادہ قیمت پر فراہم کرنا علاقے کے غریب لوگوں کے ساتھ سراسر زیادتی ہے تمام سیاسی پارٹیوں کےقائدین اور کارکنوں نے جشن شندور کے موقع پر لواری ٹنل کے ساتھ دیوار کھڑی کرنے کا اعلان کیا تھا بعد ازاں انتظامیہ کی یقین دہانی پر عوامی نمائندوں نے شندور میلے کا بائیکاٹ ختم کرنے کا اعلان کیا۔توقع ہے کہ رواں سال شندور میلے میں علاقے کے سلگتے مسائل کے حل کی کوئی سبیل نکالی جائے گا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔