ڈی سی اپر لوئر،اور اے سی اپر لوئرکی توجہ کے لئے ۔۔۔طاہر الدین شادان
دونوں اضلاع میں اور خصوصا لوئیر چترال میں جتنے بھی گرلز ہاسٹل فعال ہیں
کیا یہ تمام انتظامیہ کی طرف سے دئیے گئے رول ریگولیشن اور ضابطہ کار کے مطابق کام کر رہے ہیں ؟؟؟
یہ سوال میں اس لئے پوچھ رہا ہوں کیونکہ ان ہاسٹلوں میں ہماری ہی بیٹیاں ہیں جو دور دراز علاقوں سے تعلیم حاصل کرنے کے لئے ا کر ہاسٹلوں میں قیام پذیر ہیں
دوسرے شہروں میں ہاسٹل کھولنے کے لئے انتظامیہ سے این او سی لینا ضروری ہے
این او سی انتظامیہ تب دیتا ہے جب ہاسٹل کا اونر انتظامیہ کی طرف سے ہاسٹلوں کے لئے بنائے گئے نظم و ضبط پر پورا اترے ۔
چند ضروری چیزیں جن کے بغیر انتظامیہ این او سی جاری نہیں کرتا وہ کچھ یوں ہیں
ہاسٹل کے لئے مختص بلڈنگ رہائش کے قابل ہو
بلڈنگ محفوظ ہو خواتین کی رہائش کے لئے
ہاسٹل کے لئے سیکورٹی گارڈ کا انتظام ہو
ہاسٹل میں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ ممنوع ہو
ہاسٹل کے اندر فیملی رہائش نہ ہو
ہاسٹل کی چار دیواری ہو
ہاسٹل میں کھانا معیار کے مطابق ہو
ہاسٹل میں گنجائش سے زیادہ سٹوڈنٹس نہ ہو
ہاسٹل میں پانی و بجلی کا انتظام ہو
اب پوچھنا یہ تھا کہ چترال کے اندر ہاسٹل کھولنے کے لئے کسی این او سی کی ضرورت ہے یا ہر ایک اپنی مرضی سے بلڈنگ کرایہ پر لیکر کاروبار کر سکتا ہے ؟؟؟
اگر انتظامیہ کی اجازت کے بغیر ہاسٹل نہیں کھولا جا سکتا تو انتظامیہ اجازت کن شرائط پر دیتا ہے صرف بلڈنگ ہونا چاہئیے یا کچھ اور بھی شرائط ہیں ؟
اگر مذکورہ تمام شرائط پوری ہونے کی صورت میں ہی انتظامیہ این او سی جاری کرتا ہے تو شہر کے اندر ستر اسی فیصد ہاسٹلز کے اونرز انتظامیہ کے قوانین کی دھجیاں کیوں اڑاتے ہیں ۔
چند ایک کے علاؤہ باقی تمام ہاسٹلز بچیوں کے لئے غیر مناسب اور این او سی کی خلاف ورزی کے مرتکب کیوں ہیں ؟
اکثر ہاسٹلز چار دیواری سے آزاد کیوں ؟
کمروں میں گنجائش سے زیادہ سیٹیں کیسی؟
ہاسٹلوں کے اندر فیملی رہائش کیوں ؟
ہاسٹلوں میں بچیوں کی اجازت اور مرضی کے بغیر مختلف فنگشنز اور پروگرامات کس لئے ؟
سیکیورٹی کا تو کسی نے سوچا تک نہیں, وجہ ؟؟
نہ سیکورٹی گارڈ نہ سی سی ٹی وی کیمرے ، کیوں ؟
گرلز ہاسٹلوں میں میل وارڈن جو کسی بھی وقت منہ اٹھائے کمروں تک آئے کس قانون کے مطابق ؟
کھانے کا پوچھو ہی مت کیونکہ جب انسان خود محفوظ نہیں تو کھانے کا سوچتا ہی کہاں ہے پھر کھانا کھانے کے قابل کیوں نہیں ؟؟؟
ڈپٹی کمشنر صاحب اور اسسٹنٹ کمشنر صاحبان سے گزارش ہے کہ کم از کم گرلز ہاسٹلوں کے لئے چار دیواری ، محفوظ بلڈنگ ، سیکورٹی کا انتظام ، فیمیل وارڈن کا انتظام ہو ہاسٹلوں میں باہر کے لوگوں اور این جی اوز کی طرف سے پروگرامات پر پابندی اور ہاسٹل کے اندر اونر یا کسی کرایہ دار کی فیملی رہائش پر پابندی لگائی جائے بہت ساری بچیاں ان غیر محفوظ ہاسٹلوں میں پریشاں ہیں جو کہ گھر سے دور شہر میں محفوظ رہنا چاہتی ہیں اور وہ ایک محفوظ رہائش کے لئے ہی پیمنٹ کرتی ہیں جن کی کوشش ہوتی ہے کہ پڑھائی پر فوکس کرے لیکن ان کو ماحول نہیں ملتا وہ نہ خود کو محفوظ سمجھتی ہیں اور نہ مطمئن ہیں ایسے میں وہ کس طرح توجہ سے پڑھ سکتی ہیں ؟
امید ہے انتظامیہ اس حساس معاملے پر توجہ دیں گے کیونکہ یہ بیٹیوں کا سوال ہے ان کے پردے کا مسلہ ہے عزت و ناموس کا مسلہ ہے
نوٹ ۔۔ یہ سب میں اپنی طرف سے نہیں لکھ رہا بلکہ انہی ہاسٹلوں میں قیام پذیر بیٹیوں کی آواز آپ تک پہنچانے کوشش کر رہا ہوں