پاکستان میں آب و نکاس کے توسیعی پروگرام کا۲۰ سالہ جشن

(چترال ایکسپریس)ہر سال ۲۲ مارچ کو دنیا بھر کے ممالک عالمی یوم آب(World Water Day) مناتے ہیں تاکہ انسانی زندگی کے لیے پانی کی اہمیت اجاگر کی جا سکے۔ عالمی یوم آب اس بات کا بھی موقع فراہم کرتا ہے کہ محدود آبی وسائل کے ساتھ بڑھتی ہوئی انسانی آبادی پر موسمی تبدیلی کے اثرات کو سمجھا جائے اور عالمی سطح پر ان لاکھوں افراد کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا جائے جو اپنی روزمرہ زندگی میں پینے کا صاف پانی حاصل نہیں کرسکتے۔ بلاشبہ صاف پانی تک رسائی میں کمی انسانی ترقی کے امکانات میں بڑی رکاوٹیں پیدا کر سکتی ہے۔سنہ۲۰۱۶ء میں عالمی خطرات (Global Risks) کے عنوان سے عالمی اقتصادی فورم (World Economic Forum) کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پانی کے بحران ہماری عالمی اقتصادیات اور انسانی وطنیت کے لیے
زبردست خطرات پیدا کرتے ہیں اور اس سے پاکستان جیسے کم اور متوسط آمدنی والے ممالک زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

پاکستان بھی پائیدار ترقیاتی اہداف (Sustainable Development Goals; SDGs) کے دستخط کنندگان میں شامل ہے جو تمام ممالک پر زور دیتے ہیں کہ ’تمام افراد کے لیے پانی اورنکاس کے لیے پائیدار انتظام کی دستیابی یقینی بنائی جائے (SDG6)‘۔ پاکستان اب بھی ان ٹاپ 10 ممالک میں چھٹے نمبر پر ہے جہاں بہت بڑی آبادی غیر نقصان دہ/محفوظ پانی سے محروم ہے۔حالیہ برسوں میں، آبادی میں بہت زیادہ اضافہ اور دیہی علاقوں کی شہری علاقوں میں تبدیلی سے صاف پانی کی دستیابی اور بھی مشکل ہو گئی ہے۔ اس طرح پانی کے استعمال سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں بھی اضافہ ہوا ہے جس
سے ملک کی طویل المیعاد ترقی کے لیے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔

پینے کے لیے غیر نقصان دہ /محفوظ پانی تک رسائی کا چیلنج ان آبادیوں کو زیادہ درپیش ہے جو شمالی پاکستان میں قراقرم، کوہ ہندو کش اور ہمالیہ کے اطراف میں آباد ہیں۔ کٹھن محل وقوع اور شدید موسمی حالات کے باعث ان علاقوں میں آب ، نکاس اورحفظان صحت(Water, Sanitation and Hygiene; WASH) کا عوامی انفرااسٹرکچرمناسب نہیں ہے اور لوگوں کو پانی کے حصول کے لیے کھلے ندی ، نالوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے جن کا آلودہ پانی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ان چیلنجوں سے خواتین زیادہ متاثرہوتی ہیں جنہیں پانی کے حصول کے لیے طویل فاصلے طے کرنا پڑتے ہیں 150 اور بعض صورتوں میں تین گھنٹے تک صرف ہو جاتے ہیں۔ اپنے اہل خانہ کے لیے پانی حاصل کرنے کی اس تگ ودو کے دوران انہیں پہاڑی ڈھلانوں اور
برف سے ڈھکے ہوئے راستے طے کرنا پڑتا ہے۔ اس صورت حال کو بلتستان سے تعلق رکھنے والی ۱۴ سالہ لڑکی شیریں نے درست انداز میں بیان کیا ہے:

’’مجھے موسم سرما سے بہت خوف آتا ہے۔ اس موسم میں مجھے اپنی پیٹھ پر دریا سے پانی لانے کے لیے کئی چکر لگانا پڑتے ہیں اور جسے پی کر میرے چھوٹے بہن بھائی بیمار پڑ جاتے ہیں اور انہیں جلدی بیماریاں ہو جاتی ہیں۔ گزشتہ موسم سرما میں پانی حاصل کرنے دوران میری ٹانگ زخمی ہو گئی تھی اور میرے والد کو علاج کے لیے اسکردو کے اسپتال میں ۰۰۰،۴ روپے خرچ کرنا پڑے تھے۔‘‘

دی آغا خان ایجنسی فارہیبی ٹیٹ (AKAH) دی آغا ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک (AKDN) میں سب سے بڑا ادارہ ہے۔ان چیلنجوں کا ادراک کرتے ہوئے AKAH نے س۱۹۹۷ء میں آب و نکاس کا پروگرام (WASEP) متعارف کرایا اورشمالی پاکستان کی بلند پہاڑی آبادیوں میں WASH سروسز کاآغاز کیا۔ دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ میں AKAH کے WASEP پروگرام نے پہاڑی آبادیوں میں پینے کے لائق غیر نقصان دہ /محفوظ پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے مثالی ماڈل فراہم کیا ہے جو عالمی ادارہ صحت (WHO) کے معیارات پر بھی پورا اترتا ہے۔اس میں گلگت اور چترال جیسے شہری علاقوں کے علاوہ دور دراز علاقوں میں ناقابل رسائی دیہی آبادیاں بھی شامل ہیں مثلاً پاکستانی سرحد پر واقع بروہگل (Brohgil) گاؤں جوشدید موسم سے بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے اور سال میں چار ماہ سے زیادہ عرصہ تک یہاں سڑک کے ذریعہ نہیں پہنچاجا سکتا۔آب و نکاس کے توسیعی پروگرام (WASEP) پر عمل درآمد کے ذریعہ اس طرح کے دور دراز علاقوں میں موجود آبادی کو نمایاں طور پرفائدہ پہنچا ہے۔ ایسی ہی ایک خاتون خانہ
اپنی دہلیز پر پینے کے غیر نقصان دہ /محفوظ پانی کی فراہمی کے اثرات بیان کرتی ہیں:

’’ہمیں اسہال جیسی بیماریوں کے عذاب سے نجات مل گئی ہے اور مجھے بلند پہاڑی پر موجود کنوئیں سے پانی لانے کے لیے اب وقت اور توانائی خرچ نہیں کرنا پڑتی ہے۔ صاف پانی ہمارے گھروں پر آرہا ہے اور اب میں اضافی وقت اپنے بچوں کو ہوم وقت کرانے یا پھر ان کے لیے بہترین کپڑوں کی سلائی پر خرچ کرتی ہوں۔‘‘

آب و نکاس کے توسیعی پروگرام (WASEP) کی بنیادی کامیابی نیچے سے اوپر کی جانب جاتی ہے یعنی اس کے شراکتی انداز میں مقامی آبادیوں کی، اور بالخصوص خواتین کی ،حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ پروجیکٹ کی منصوبہ بندی

اور عمل درآمد کے مراحل میں شریک ہوں۔ ہر دیہات میں،جہاں آب و نکاس کے توسیعی پروگرام (WASEP) کے تحت پانی کی اسکیم شروع کی گئی ہے، آبادی کی زیر نگرانی ایک تنظیم بھی قائم کی گئی ہے جو پروجیکٹ کے لیے نہ صرف مالی مددفراہم کرتی ہے بلکہ مقامی تعمیری سازو سامان اور مزدوروں کو اکھٹا کرنے میں بھی مدد کرتی ہے۔مقامی آبادی کے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا نتیجہ
ان علاقوں میں پانی کی اسکیموں کے لیے آبادیوں کے درمیان ملکیت کے احساس میں اضافہ ہے۔

اس وسیع عملی تجربہ کی بنیاد پر اور بہترین عالمی طریقوں کے ادراک کرتے ہوئے، AKAH یہ بات بھی سمجھتی ہے کہ گہرے سماجی رویوں کے سبب ان مسائل سے نمٹنے کے لیے صرف آب و نکاس کے انفرااسٹرکچر کی تنصیب کافی نہیں ہے۔ لہٰذا WASEP کا انتہائی اہم جزو رویوں میں تبدیلی کے لیے روابط کی حکمت عملی ہے جس نے آبادیوں کو روزمرہ زندگی میں بہتر صحت اور حفظان صحت کے اصولوں کو اپنانے کے بارے میں حساس بنایا ہے۔چنانچہ کمیونٹی ہیلتھ امپروومنٹ پرگرام (CHIP) مختلف آبادیوں میں ، اور بالخصوص خواتین میں، بنیادی صحت اور حفظان صحت کو برقرار رکھنے کے لیے حساسیت پیدا کرتا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران، CHIP کے ذریعہ WASEP نے ۰۰۰،۱۵۰ سے زائد افراد کو تربیت فراہم کی ہے جن میں ۶۰
فیصد سے زیادہ خواتین ہیں۔
پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا احساس کرتے ہوئے، بالخصوص چھوٹے بچوں میں، WASEP نے اسکول ہیلتھ امپروومنٹ پروگرام (SHIP) شروع کیا ہے جس کی توجہ کا مرکز پرائمری اسکول کی سطح پر بچوں میں بنیادی صحت اور حفظان صحت کے معاملات، بیماریوں کے پھیلاؤ کے ذرائع، وجوہات اور اسہال اور پانی سے پیدا ہونے والی دیگر بیماریوں سے تحفظ اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے خلاف مدافعتی اقدامات، ہاتھ دھونے کی مشق و عادت وغیرہ ،ہیں۔سنہ ۱۹۹۷ء سے WASEP اسکول جانے والے ۰۰۰،۱۰۰ سے زائد بچوں کی تربیت کر چکا ہے جن میں سے تقریباً ۵۰ فیصد بچیاں ہیں تاکہ وہ اپنے گھروں میں صحت بخش عادات اور طریقوں کو فروغ دے سکیں۔
دی آغا خان ایجنسی فارہیبی ٹیٹ (AKAH) کے انداز فکر کو، سن۲۰۰۵ء میں الکین پرائز فار سسٹین ایبلٹی (Alcan Prize for Sustainability) اورسنہ ۲۰۰۸ء میں دبی انٹرنیشنل ایوارڈز فار بیسٹ پریکٹسز(Dubai International Awards for Best Practices) نے بھی تسلیم کیا۔ آب و نکاس کے توسیعی پروگرام (WASEP) کواقوام متحدہ کے ترقیاتی گروپ(United Nations Development Group) نے بھی MGDs کے حصول کے لیے مخصوص پابندیوں اور چیلنجوں کے باوجود ملیئنم ڈیویلپمنٹ گولز (Millennium Development Goals (MDG) کے لیے بہترین طریقہ قرار دیا ہے۔عالمی ادارہ صحت (WHO) کے سنہ ۲۰۰۳ء میں شائع ہونے والے بلیٹن کے مطابق WASEP کی جانب سے فراہم کیا جانے والا خدمات کا پورا ’’پیکیج‘‘(پینے کا غیر نقصان دہ/محفوظ پانی، نکاس، صحت اور حفظان صحت کی تعلیم) اس پروجیکٹ کے تحت آنے والے دیہاتوں میں اسہال جیسی بیماریوں میں ۲۵ فیصد تک کمی لانے میں بہت کارآمد ثابت ہوا ہے۔ پاکستان بھی اس حقیقت پر فخر کر سکتا ہے کہ WASEP جیسے ماڈل کی
تاجکستان اور افغانستان جیسے بعض پہاڑی ممالک میں بھی نقل کی گئی ہے۔

تاہم، گزشتہ بیس برسوں کے دوران ان کامیابیوں کے باوجود ، پاکستان میں متعدد آبادیاں اب بھی پینے کے لیے نقصان دہ /غیرمحفوظ پانی استعمال کر رہی ہیں۔ آج، دنیا عالمی یوم آب (World Water Day) منا رہی ہے۔ ہمیں عوامی اور نجی شعبوں کی سطح پر اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ سول سوسائٹی کو بھی چاہیے کہ وہ ہمارے وسائل کے ساتھ مطابقت پیدا کریں اور پاکستان میں خوشحالی لانے کیلیے اہم ترقیاتی مقصد کے طور پرتمام لوگوں کی پانی
تک رسائی کو ترجیح دیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔