ادب ، ادیب اور منافقت

شاعر مشرق نے کہا تھا کہ” قوم اور معاشرہ اگر جسم ہے تو شاعر و ادیب  کی مثال  آنکھ کی سی ہے ۔ اور جسم کو اگر کوئی روگ لگ جائے تو آنسو آنکھوں سے ٹپک جاتے ہیں یا یوں کہا جائے کہ آنکھ سے بہتے آنسوؤں سے جسم کے  روگ کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔”

معاشرہ   دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے، ایک وہ جو نظر آتا ہے اور جس میں اچھائی کا انعام اور برائی کی سزا ملتی ہے، اور دوسرا وہ جو اندر ہوتا ہے جسے ضمیر کہتے ہیں اور حقیقت میں معاشرہ وہی ہوتا ہے جو اندر  ہے اور باہر والا روپ اس کی عکاس ہے۔  جس معاشرے میں اندر اور باہریا ظاہر وباطن  میں فرق ہو تو اس معاشرے کو منافق کہا جاتا ہے۔  معاشرہ چونکہ افراد کا مجموعہ ہے اور فرد کے کردار سے ہی معاشرتی کردار واضح ہوتی ہے۔ اسلامی معاشرے میں منافقت کی سختی سے مذمت کی گئی ہے  ۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ معاشرے ترقی کرتے ہیں جہاں ضمیر زندہ ہوتا ہے اور منافقت کی کوئی گنجائش نہ ہو۔

پچھلے دنوں چترال کے ادبی تنظیمات کے ایک اجلاس میں شرکت کرنے کا موقع ملا جو جشن ققلشٹ کے بائیکاٹ کے بعد بلایا گیا تھا۔ اس اجلاس میں چترال کے نو تنظیمات کے نمائندےشریک تھے جس میں  یہ فیصلہ ہوا کہ تمام تنظیمات کا ایک رابطہ پنجائیت بنائی جائے گی جو متفقہ آئین کے تحت کام کرے گی تاکہ ققلشٹ جیسا واقعہ پھر پیش نہ آئے اور آپس میں چپقلش پیدا نہ ہو۔ اس کے بعد اے۔ڈی۔سی آفس جانے کا فیصلہ ہوا اور اے۔ڈی۔سی صاحب نے بھی وہی مشورہ دیا کہ ایک کورڈینیشن کمیٹی تشکیل دیا جائے تاکہ رابطہ ممکن ہو سکے کیونکہ ہمارے دفتر میں بھی ادبی تنظیم کا ایک رکن موجود ہے اس سے آگے کسی سے رابطہ نہیں رکھ سکتے ہیں اور بعد میں   ناراضگی ہوتی ہے۔ اس ملاقات کے بعد دفتر سے باہرآئے سب ملکر ایک گروپ کھینچا اور اے۔ڈی۔سی صاحب نے ہمیں مخاطب کرکے کہا کہ جشن چترال کے موقع پر آپ لوگ  ضرور شرکت کریں اور جو پروپوزل دئیے تھے اسے ممکن بنانا۔  اس کے بعد ادباء کی جانب سے ہمیں یہ کہا گیا کہ آج ایک پروپوزل تیار کرکے سب کے ساتھ شئیر کیا جائے گا اور کل اجلاس بلائیں گے اور اس  میں رابطہ یعنی کوآرڈینیشن کمیٹی بنایا جائے گا۔  ہم سیدھے سادے لوگ ہیں اور ادیبوں کی قدر کرتے ہیں ہم یہ سمجھ کر انتظار کرنے لگے کہ ادیب لوگ ہیں جو دل میں ہے وہی ان کے زبان میں ہوگی۔ یہ لوگ کبھی دل کا برا نہیں ہوتے۔”ہمیں یقین ہے کہ گر چہ ہم ادیب نہیں مگر پچھلے نو سالوں سے کھوار ادب کے خادم ہیں اور کراچی میں موجود چترال اور گلگت بلتستان کے کھوار زبان وادب سے تعلق رکھنے والوں کے لئے ادبی پروگرامات کا انعقاد کرتے چلے آرہے ہیں۔ اور آج ہم فخر محسوس کر رہے تھے کہ کراچی میں کافی عرصہ گذارنے کے بعدجب چترال آئے تو ادباء کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا اور یہ شاید ہماری ادبی خدمات کا صلہ ہے جو ہمیں مل رہا ہے۔ کیونکہ ہم بھی نوسالوں سے کراچی میں مقیم اہل سخن کہوار کے لئے اپنے  طرف سے پروگرامات کا انعقاد کرتے چلے آرہے تھے جس میں چترال کے ادب و ثقافت کے بڑے نام جن میں منصور علی شباب، ذاکر زخمی وغیرہ شامل ہیں، شرکت کئے اور ان پروگرامات کے کئی مقاصد تھے مگر خاص مقصد یہ تھا کہ کراچی میں پیدا ہونے  اور کراچی میں پرورش پانے والی ہماری نسل کو کھوار ادب و ثقافت سے آگاہ رکھنا تھا۔”

دو دن انتظار کرنے کے بعد جب ہمیں معلوم ہوا   کہ پروپوزل اے۔ڈی۔سی  چترال کے آفس میں جمع ہو چکی ہے اور پروگرام بھی ترتیب دیا گیا ہے۔ ہم حیران رہ گئے کہ ہمارے ساتھ زبان کیا گیا تھا کہ اجلاس بلایا جائے گا اور اسی اجلاس میں فیصلہ ہوگا!!! ۔۔۔ مگر یہ سب کیا؟ ہم پھر بھی اس امید سے تھے کہ شاید ہمارے ادباء ہمارے ساتھ انصاف کریں گے ۔ ہوا یوں تھا کہ کمشنر کے دفتر سے فارغ ہونے کے بعد ادباء صاحباں جن میں سے ایک صاحب کمشنر آفس میں ملازم ہے، کےگھر تشریف لےگئے اور پروگرام فائنل کرکے کمشنر کے پاس جمع کروائے اور باقی جو لوگ تھے انہیں یہ کہہ کر دیوار سے لگا لئے کہ ققلشٹ کی بائیکاٹ کے بعد یہ لوگ ہمارے اوپر تنقید کئے تھے۔ ہوا یوں تھا کہ  ہمارے ایک نادان دوست نے ہمارے معتبر ادباء کو ادب کے ٹھیکیدار کہہ کر مخاطب کیا جو کہ غلط تھا کیونکہ جانچ پڑتال کئے بغیر رائے قائم کرنا غلط ہے اور یہ بات تحقیق سے واضح ہوئی کہ ادب کے منتظمین کی نیت میں فطور تھا  ۔ دل میں بغض رکھ کر زبان سے اتحاد و اتفاق اور ہم آہنگی کی باتیں محض دیکھاوے کے علاوہ اور کچھ نہیں  اور ایسے گروہ منافقت کے زمرے آتے ہیں ۔ اور ہم معاشرے کے ہر فرد کو یہ تلقین کرتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی شر سے بچنے کی کوشش کریں جن کے قول و فعل میں تضاد ہو۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔