سپاس گزاری۔۔اللھم لک الحمد و لک الشکر۔۔۔تحریر:مولوی حذیفہ خلیق کاکاخیل | فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی
خدائے بزرگ و برتر کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے۔ یہ انہی کا کرم ہے کہ بعافیت “درس نظامی” کی تکمیل ہوئی۔ اللھم لک الحمد و الک الشکر۔ اس سفر کی تکمیل صرف مدرسہ میں داخلہ اور فراغت پرمحیط نہیں بلکہ اس کی ابتدا ان تمام اسباب کی فراہمی سے شروع ہوتی ہے یوں میں تحدیث بالنعمت کے طور پر یہ کہنا چاہوں گا۔ کہ اسلام و ایمان کی نعمت کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک خانوادہ علمی میں پیدا کیا۔ جہاں میرے دادا جان مولوی صاحب الزمان رحمہ اللہ (فاضل دارالعلوم دیوبند و تلمیذ خاص سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ) کے اذان برگوش نے یہ پیغام دیا کہ آپ کی زندگی دنیا میں اس نسبتِ علمی سے معمور ہوگی۔ انہی کی دعاؤں کے سہارے اس سفرِعلمی کی بناء ہوئی۔
دینی تعلیم کی ابتداء چترال (ایون) میں ہماری مسجد میں قائم مکتب سراقہ بن عبد الملک (زیرانتظام خدام القرآن انٹرنیشنل ٹرسٹ) سے ہوئی، جہاں میرے ماموجان میرے اولین استاذ “مولانا رحمان اللہ صاحب فاضل جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی” نے الف، با، تا سے شروع کیا۔ ناظرہ قرآن تجوید اور حفظ القرآن کے پارے ماموں جان نے حفظ کرائے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے ۔ اسی دوران نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ مکاتب قرآنیہ کا تسلسل ٹوٹ گیا اور حفظ القرآن کا سلسلہ میٹرک تک موقوف رہا۔ بعد ازیں حسب منصوبہ والد محترم نے تکمیل حفظ القرآن کیلئے شاہی مسجد چترال میں اپنی نگرانی میں قائم قاری محمد شعیب رحمہ اللہ کے مکتب میں بٹھادیا۔ جہاں سے الحمد للہ حفظ القرآن کی تکمیل ہوئی۔ حفظ القرآن اور دور قرآن میں حضرت قاری محمد شعیب رحمہ اللہ کے ساتھ مولانا قاری سیف العزیز فاضل دارالعلوم کراچی سے تلمذ کا شرف حاصل ہوئی۔ ان کے احسانات کا جتنا بھی شکریہ ادا کروں کم ہے انہیں کی کوششوں اور حوصلہ افزا کلمات سے الحمد للہ قرآن کریم سے نسبت قائم و دائم ہے۔
درس نظامی کی ابتداء پاکستان کے معروف دینی ادارہ جامعہ عثمانیہ پشاور سے ہوئی جہاں ابتدائ تین درجات پڑھنے کا موقع اللہ تبارک نے عطا فرمایا، اس عظیم علمی و فکری جامعہ سے وابستگی کو بندہ اپنے لئیے متاع زیست سمجھتا ہے۔ وہاں کی تعلیمی زندگی کا تذکرہ بشرط حیات تذکرہ کا ارادہ ہے۔ ثالثہ کے بعد کے درجات لیئے اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل و کرم سے جامعہ دارالعلوم کراچی جیسے بے مثال ادارہ میں ورود ہوئ۔ دارالعلوم کیا ہے،؟ دارلعلوم کیسا ہے؟ اس کا اظہار الفاظ سے ممکن نہیں۔ اور الحمد للہ گزشتہ کل یہیں سے درس نظامی کی تکمیل ہوئی۔ اللھم لک الحمد و لک الشکر۔
درس نظامی کے اس سفر کے دوران ایک سال چترال کے معروف دینی فکری علمی و عملی دانشگاہ جامعہ اسلامیہ ریحانکوٹ چترال میں حضرت قاری عبد الرحمٰن قریشی صاحب کے زیر سایہ کسب فیض کا موقع ملا۔ یہ سال میری زندگی کا ایک انقلابی سال ثابت ہوا۔ وہاں کے اساتذہ کرام نے بے نظیر الفت و محبت ور حوصلہ افزائیوں سے خوب نوازا۔ میں آج بلا خوف و جھجک کسی بھی جگہ گفتگو کرنے کا قابل ہوں تو اس کا سہرہ اسی جامعہ کو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس گلشن قریشی کو سدا شاداب رکھے ۔
اس طویل علمی میں سفر میں اگر تمام کا شخصیات کا ذکر نہ کروں جنکی قربانیوں کی بدولت یہ سفر اختتام پذیر ہوا تو سخت ناسپاسی و ناشکری ہوگی۔ میرے والد ماجد مولانا خلیق الزمان کاکاخیل کے بے پناہ احسانات کا شکریہ ادا کرنے سے بوجوہ عاجز ہوں میری امی جان کا شکریہ کہ انہوں نے میری پیدائش سے لیکر آج تک میری بہترین پرورش و تربیت کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا سب سے بڑھ آٹھ سالوں پر محیط فراق برداشت کیا اور اپنی آہ سحرگاہی کی صورت میں زاد راہ میسر کرتا رہا ۔بس دعاگو ہوں کہ میرے اللہ! میرے والدین کریمین نے میرے بارے میں خیر کا ارادہ کیا مجھے اس مادہ پرستی کے دور میں دینی علم سے بہرہ ورکیا میرے اللہ! آپ بھی میرے اباجان اور امی جان کیلئے خیر کا ارادہ فرمائیں صحت و عافیت کے ساتھ ان کا دست شفقت ہمارےسروں پر تادیر قائم و دائم رکھیں۔ اور انکی خوب خدمت کی ہمیں توفیق عطا فرمائیں۔
میری شریک حیات ام اسوۃ بنت مولانا فیض الرحمن العثمانی (مؤسس ادارہ علوم اسلامی اسلام آباد) کو اللہ جزائے خیر دے کہ انہوں نے اس سفر کی تکمیل میں بھرپور ساتھ دیا۔ شادی کے ڈیڑھ ماہ بعد میں نے واپس کراچی کا عزم کیا اور گزشتہ چار سالوں میں ڈیڑھ ماہ سے زیادہ وقت گھر میں گزارنے کا موقع نہیں ملا لیکن ان کی زبان پر کبھی حرف شکایت نہیں آئی ان کے قدم کبھی لڑکھڑائے نہیں۔ان سے یہ حوصلہ ملا کہ ہر شام کے بعد ایک صبح ضرور ہے۔
قیام کراچی کے پانچ سالہ دور میں خانوادہ قاری فیض اللہ چترالی صاحب کے ہرہر فرد بالخصوص حضرت قاری صاحب اور ان کے فرزند مفتی ولی اللہ چترالی صاحب حفظہم اللہ میرے سائبان بنے رہے ۔ ان کے دست شفقت تلے کبھی احساس نہیں ہوا کہ میں 1900 کلو میٹر کے فاصلہ پر ہوں۔ کراچی آمد سے لیکر آج تک میرا دست و بازو بنے رہے ۔ اللہ ان تمام کو جزائے خیر عطا فرمائے اور حضرت قاری صاحب کا فیض چہار سُو جاری و ساری رکھے، ان سمیت ان کے صاحبزادگان کے بےپناہ محبتوں اور الفتوں کا میں تادم زیست مقروض ہوں۔
اخیرا میں نے نورانی قاعدہ لیکر (الصحیح للبخاری) کی آخری سبق کلمتان حبیبتان۔۔ تک مکتب ، شاہی مسجد چترال، جامعہ عثمانیہ پشاور ،جامعہ اسلامیہ ریحانکوٹ چترال اور جامعہ دارالعلوم کراچی کے جن اساتذہ کرام سے کسبِ فیض کیا ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں لیکن ان کے احسانات کے آگے میرے الفاظ کی حیثیت کیا ان کا شکریہ کماحقہ ادا کرنا نہایت مشکل ہے۔ بس میں اتنا کرسکتا ہوں ان کیلئے دعا کروں ۔ اللہ تعالیٰ ان تمام کو اپنے شایانِ شان جزا سے نہ صرف انہیں بلکہ ان کے گھرانوں کو خوب سے خوب نوازے۔
جامعہ دارالعلوم کراچی میں منعقدہ “تقریب ختم بخاری و دستار فضیلت” میں والد محترم کی شرکت سے بہت حوصلہ ملا۔ اس کے ساتھ کراچی میں محبین کی کافی تعداد کی میری حوصلہ افزائ کیلئے تشریف آوری ہوئی۔دستار بندی کی اس تقریب و لمحات مسرت کو اپنی تشریف آوری سے رونق بخشنے پر شکرگزار ہوں۔ سوشل میڈیا ،فون کالز ، برقی پیغامات اور دیگر ذرائع سے اظہار اخلاص و محبت اور تہنیتی پیغامات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ہر ایک کا فرداً فرداً شکریہ ادا کرنا یقینا ایک مشکل امر ہے۔ میں اپنی طرف سے اور اپنے والد محترم کی طرف سے تمام کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکرگزار ہوں۔ دعاگو ہوں اللہ تعالیٰ آپ تمام کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ یقینا آپ تمام نے ہمیں دین کی نسبت سے محبتوں سے نوازا بس اب اتنی گزارش ہے دعاگو رہیئے کہ اللہ اس نسبت کی لاج رکھنے توفیق وافر عطا فرمائے اور خدمت دین کیلئے قبول فرمائے ۔ آمین