وزیر دفاع کا کڑوا سچ…محمد شریف شکیب
تیرہ جماعتی اتحاد پی ڈی ایم کے ایک اہم وزیر نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب نہیں، بلکہ دیوالیہ ہو چکا ہے۔ لاہور میں ایک تقریب سے خطاب میں وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ملک کو سیاسی اور معاشی طور پر کنگال کرنے میں بیوروکریسی، اسٹبلش منٹ اور سیاست دانوں کا ہاتھ ہے۔ سیاست کو گالی بنادیا گیا۔آئین اور قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی رہیں۔ تین عشروں سے ملک کا سیاسی نظام رو بہ زوال ہے۔وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مسائل کا حل آئی ایم ایف کے پاس نہیں ہے۔ہمیں اپنے پاوں پر خود کھڑا ہونے کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔اس سے قبل وزیر خزانہ کا ایک بیان سوشل میڈیا پر گردش کر رہا تھا کہ ہم نے اپنے جوہری اثاثے قرض لینے کے لئے گروی رکھ دیئے ہیں لیکن قوم کو پریشاں ہونے کی ضرورت نہیں۔ جوہری اثاثوں کی ملکیت ہمارے پاس ہی رہے گی۔پاکستانی قوم پر یہ افتاد گذشتہ چند مہینوں کے اندر پڑی ہے۔ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر ساڑھے سولہ ارب ڈالر سے گھٹ کر محض ڈھائی ارب رہ گئے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے بھی رقومات وطن بھیجنے میں واضح کمی کردی۔کمرشل بینکوں کو ڈالر جاری کرنے سے روک دیا گیا ہے جس کی وجہ سے کراچی کی بندرگاہ پر ہزاروں کی تعداد میں مال بردار کنٹینر کھڑے ہیں۔ان کو ادائیگی کرکے مال وا گذار کرنے کے لئے درآمدکنندگان کے پاس ڈالر نہیں ہیں۔وزیر دفاع کے اس موقف کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتاکہ ہمارے مسائل کا حل بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، ورلڈ بینک، پیرس کلب اور ایشیائی بینک سمیت کسی کے پاس بھی نہیں۔اور نہ ہی بین الاقوامی مالیاتی ادارے ہمیں کنگال کرنے میں ملوث ہیں۔ہم نے اپنی عیاشیوں کے لئے خود ہی اپنے آپ کو قرضوں میں جکڑ لیا ہے۔قرضوں کی اقساط اور سود ادا کرنے کے لئے ان اداروں سے قرضے لیتے رہے اور قرضہ ملنے پر بغلیں بھی بجاتے رہے۔ان قرضوں کو اگر قومی تعمیر کے لئے استعمال کیا جاتا۔تو ہم آج قرضہ دینے والوں کی صف میں کھڑے ہوتے۔اللہ تعالی نے اس ملک کو کیا کچھ نہیں دیا۔ ہمارے پاس وافر آبی ذخائر ہیں لیکن ڈیم بنا کر اپنی بنجر زمینوں کو آباد کرنے اور سستی بجلی پیدا کرنے کی کسی کو توفیق نہیں ہوئی۔بھاری کمیشن کی خاطر تھرمل پراجیکٹس اور کرائے کے بجلی گھر خریدے گئے۔ ان کو چلانے کے لئے ہمارے پاس تیل نہیں ہے جس کی وجہ سے اکثر تھرمل پاور سٹیشن بند پڑے ہیں اور عوام کو روزانہ بارہ سے سولہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ کا عذاب سہنا پڑتا ہے۔ہمسایہ ملک ایران اور وسطی ایشیائی اسلامی ملکوں کے پاس بجلی، گیس اور تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں وہ ہمیں سستے داموں دینے کے لئے بھی تیار ہیں مگر ہم اپنے غیر ملکی آقاوں کی ناراضگی کے باعث ان سستے وسائل سے استفادہ نہیں کر پا رہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط قبول کرنے اور مہنگائی کا طوفان اٹھانے کے باوجود ہم کنگال ہونے سے نہیں بچ سکتے تو پھر ناپسندیدہ شرائط پر قرضہ لینے اور اپنے عوام کو مہنگائی کے تاریک گڑھے میں دھکیلنے کی آخر ضرورت ہی کیا تھی۔