مہنگائی کی شرح میں ریکارڈ اضافہ…محمد شریف شکیب

ماہرین اقتصادیات کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح 48 سال کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی ہے۔گذشتہ ایک ماہ کے دوران مہنگائی کی شرح میں 4.32 فیصد مزید اضافہ ریکارڈ کیا گیا جس کے بعد ملک میں مہنگائی کی مجموعی شرح 31.55 فیصد تک پہنچ گئی،جو 76سالوں میں مہنگائی کی بلندترین سطح ہے۔ اس سے پہلے اپریل 1975 میں مہنگائی کی شرح 29.3 فیصد تھی۔ جولائی 2022 تا فروری 2023 کے دوران مہنگائی کی شرح 26.19 فیصد ریکارڈ ہوئی۔شہروں میں مہنگائی کی شرح میں 4.54 فیصد اور دیہی علاقوں میں 4.01 فیصد اضافہ ہوا ہے۔مارکیٹ سروے کے مطابق ایک مہینے میں شہروں میں مرغی 19.89 فیصد، خوردنی تیل 17.21 فیصد، گھی 16.59 فیصد، تازہ پھل 15.13 فیصد اور سبزیاں 13.97 فیصد مہنگی ہوئی ہیں۔اس عرصے میں دال چنا 11.03 فیصد، بیسن 10.98 فیصد اور دال ماش10.35 فیصدمہنگی ہوئی۔ملک میں پیازکی قیمتوں میں معمولی کمی ہوئی ہے اب بھی مارکیٹ میں پیاز کی قیمت پونے دو سو روپے ہے۔ بھنڈی، توری ، ٹینڈے ، لہسن اور ادرک کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔محکمہ شماریات کا کہنا ہے کہ ایک سال میں شہروں میں پیاز 416.74 فیصد، مرغی کا گوشت 96.86 فیصد، انڈے 78.73 فیصد اور چاول 77.81 فیصدمہنگے ہوئے ہیں۔ ایک سال میں کوکنگ آئل 50.66 فیصد، گھی 45.89 فیصد اور سبزیاں 11.60 فیصد مہنگی ہوئیں۔آٹا ہر چھوٹے بڑے گھر کی بنیادی ضرورت ہے۔ ہر گھر میں روزانہ صبح، دوپہر اور شام کو روٹی پکتی ہے۔ گذشتہ ایک سال کے اندر آٹے کی قیمت 1200روپے سے بڑھ کر 32سو روپے فی بیس کلو گرام تک پہنچ گئی۔آٹے کی قیمتوں میں اڑھائی سو فیصد اضافے نے تنخواہ دار، متوسط اور غریب طبقے کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ آٹا مہنگا ہونے کی وجہ سے روٹی کی قیمت بھی دس روپے سے بڑھا کر تیس روپے کردی گئی۔ چھ افراد پر مشتمل خاندان کے افراد ایک وقت میں ایک روٹی بھی کھائیں تو روزانہ صرف اٹھارہ روٹیوں کی قیمت 560روپے بنتے ہیں۔ جس محنت کش کی تنخواہ آٹھ سو روپے ماہانہ ہو۔ وہ اپنے بچوں کو روٹی کے ساتھ نمک ہی کھلاسکتا ہے۔ گوشت،مرغی، سبزی، دال اور چاول پکانا ان کے لئے عیاشی کے زمرے میں آگیا ہے۔خوردنی تیل کی قیمت گذشتہ آٹھ مہینوں کے اندر 180روپے فی لیٹر سے 550روپے ہوگئی ہے ۔مرغی کا گوشت 140روپے کلو سے بڑھ کر 480روپے ، بڑے گوشت کی قیمت 350روپے فی کلو سےبڑھ کر 800روپے اور چھوٹے گوشت کی قیمت 800روپے کلو سے بڑھ کر1600روپے کلو ہوگیا ہے۔بجلی ، گیس ، پٹرولیم مصنوعات اور ایل پی جی کی قیمتوں میں بھی کئی گنا اضافہ کیاگیا ہے۔ایک سال کے دوران ملک میں ایسا کونسا طوفان آیا ہے کہ قیمتوں میں تین سو فیصد تک اضافہ ہوگیا۔ صرف سیاسی تبدیلی آئی ہے۔حالانکہ ڈیڑھ دو سال قبل کورونا وباء کی وجہ سے پوری دنیا کی معیشت کو شدید دھچکا لگا تھا۔ ممالک کے درمیان تجارتی رابطے بھی منقطع ہوئے تھے۔ سرمایہ کاری رک گئی تھی کارخانےبند ہورہے تھے۔ پاکستان نے کورونا کے باوجود اپنی معیشت کو گرنےنہیں دیا۔ لیکن جب پوری دنیا میں معاشی حالات معمول پر آگئے تو پاکستان میں مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی کی خوفناک لہر آگئی۔ سیاست دان مہنگائی کی لہر کو آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لئے عائد شرائط کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔قرضہ دینے والے ادارے کی طرف سے صرف سبسڈی ختم کرنے، ٹیکسوں کی شرح میں اضافے، ٹیرر فنانسنگ کی روک تھام اور معیشت کو دستاویزی بنانے کی شرائط رکھی گئی تھیں۔ عالمی ادارےنے کھبی یہ شرط نہیں رکھی کہ مقامی پیداوار کی قیمتوں کو بھی ڈالر کے ریٹ کے ساتھ فیکس کریں۔ آئی ایم ایف نے یہ شرط نہیں رکھی کہ پانی سے سستی بجلی بنانے کے بجائے تیل سے چلنے والے تھرمل پاور سٹیشن خریدیں۔مقامی طور پر تیار کی جانے والی گاڑیاں استعمال کرنے کے بجائے بیرون ملک سے مہنگے داموں ائرکنڈیشنڈ، بم پروف اور بلٹ پروف گاڑیاں منگوائیں ،وزراء کی فوج ظفر موج بھرتی کریں۔افسروں کو زیادہ سے زیادہ اور مراعات فراہم کریں۔ملک میں سیاسی عدم استحکام تمام مسائل کی جڑ ہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف معاشی بحران پیدا ہوا ہے بلکہ امن و امان کی صورتحال بھی روزبروز بگڑتی جارہی ہے۔ حکمرانوں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سےقرضے ملنے کے بعد بھی مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوسکتا ہے اس لئے قوم کو مزید مہنگائی کا مقابلہ کرنے اور ملک کی خاطر مزید قربانی دینے کےلئے تیار رہنا ہوگا۔عوام کے پاس قربانی دینے کو اپنی جانوں کے سوا کچھ نہیں بچا ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔