کوئی نہ ہو تیماردار…محمد شریف شکیب
مرزا غالب نے شاید اپنی تنہائی پسندی کے جوش میں کہاتھا کہ ”پڑیئے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار، اور اگر مرجائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو“غالب کی شاعری کے معیار پرکوئی انگلی اٹھانے کی جرات نہیں کرسکتا مگر ان کی رائے سے اختلاف ہمارا جمہوری حق ہے۔ کوئی تیمار دار نہ ہو۔تو بیمار پڑنے کا کیافائدہ۔بیماری کے بارے میں مذہبی قسم کے لوگوں کا کہنا ہے کہ بیمار آدمی کے گناہ جھڑ جاتے ہیں اور بیماری جتنی طویل ہوگی۔اس کے بے شمار روحانی فائدے ہیں۔تاہم کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بیماری سے زیادہ تیمارداروں کے سوالات کا جواب دینا اور ان کے مشوروں پر غور کرنا تکلیف دہ ہے۔ ہر تیمار دار اپنے تجربے کی بنیاد پر مختلف دوائیاں اور دیسی ٹوٹکے تجویز کرتا ہے۔اوریہ شرط بھی لگاتا ہے کہ اس کی تجویز کردہ دوائی استعمال کرکے دیکھو۔اگر افاقہ نہ ہو۔تو جو چور کی سزا وہ میری۔بعض لوگ تیمارداری کو اپنا فرض منصبی اورمریض کو مشورہ دینا اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتے ہیں۔ کچھ تیماردار مریض کا حوصلہ دینے کے نام پر مذاق تک اڑاتے ہیں۔کہتے ہیں کہ زرا سا بخار چڑھا اور بستر سے لگ گئے۔ ہٹے کھٹے آدمی ہو۔ چلتے پھیرتے نظر آؤ۔ بیماری خود ہی رفو چکر ہوجائے گی۔ اور کچھ تیمار دار تو مریض کو اتنا ڈراتے ہیں کہ اسے موت کا فرشتہ اپنے سرہانے بیٹھے محسوس ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہر انسان کو اپنی یادوسروں کی موت قبل از وقت اور شادی بعد از وقت معلوم ہوتی ہے۔ مشتاق یوسفی کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں باعزت طریقے سے مرنا محض ایک حادثہ نہیں، بلکہ ہنر ہے۔ جس کے لئے عمر بھر ریاضت کرنی پڑتی ہے۔ اگر اللہ توفیق نہ دے تو باعزت موت ہر ایک کے بس کا روگ نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہمارے ہاں بہت کم لیڈر ایسے گذرے ہیں جنہیں صحیح وقت پر مرنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ کچھ شہرت کے دلدادہ لوگ اپنے سیاسی دشمنوں کو رشوت دے کر خود کو شہیدکرواتے ہیں تاکہ ہر سال ان کی برسی دھوم دھام سے منائی جاسکے۔مشاہدے میں آیا ہے کہ نوجوان لڑکوں کو شادی کی صلاح دینا، مکان بنانے والے کو نقشہ سمجھانا اور بیمار کو علاج کے مختلف طور طریقے بتانا اکثر لوگ اپنافرض اولین گردانتے ہیں۔ اور نوے فیصد بیماروں کو عیادت کرنے والوں سے الرجی ہوتی ہے اس لئے وہ بیمار ہونے کے باوجود عیادت کرنے والوں کے ڈر سے تندرست رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ بیوی، بچوں اور دیگر رشتے داروں کو اپنی اہمیت جتانے کے لئے بیمار ہونے کی ایکٹنگ کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ تیمار دار آئیں اور دنیا والوں کی ان کی سماجی اور سیاسی حیثیت کا اندازہ ہوجائے۔ کچھ دل جلے اپنے محبوب کو عیادت پر مجبور کرنے کے لئے بھی بیماری کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔کسی بیمار کو عیادت کے وقت آزمودہ دوا لینے کی تجویز دینا بعض لوگوں کے نیزدیک شائستگی کی نشانی ہے۔ اس لئے تیمارداری کرنیوالوں کی اکثریت اپنے ذاتی، والدین، رشتہ داروں اور جاننے والوں کے تجربات کا نچوڑ مریض کے سامنے رکھتے ہیں اور اس کے قوت فیصلہ کا امتحان لیتے ہیں کہ ہمارے مشوروں پر عمل کرکے جینے کے لئے جتن کرنا ہے یا موت کو گلے لگانے کے لئے تیار رہنا ہے۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ انسان کو باقاعدگی سے متواز ن غذااور غلط مشورے ملتے رہے تو وہ نہ صرف بہت سے بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے بلکہ لمبی عمر پاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ زہر کے سواہر کڑوی چیز خون کو صاف کرتی ہے اور جب خون صاف ہو تو انسان بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔ یہ ان خوش اعتقاد لوگوں کا عقیدہ ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ہر بدصورت عورت نیک چلن ہوتی ہے۔ یقین جانئے کہ نہ ہر بدصورت نیک چلن اور خوبصورت بدچلن ہوتی ہے اور نہ ہر کڑوی چیز تریاق ہوتی ہے۔ یہ لوگوں کے اپنے وضع کردہ فارمولے ہیں دل کو بہلانے کے لئے ایسے خیالات گھڑتے رہتے ہیں۔