سرکاری سکولوں کی نجکاری کی تجویز…محمد شریف شکیب

محکمہ تعلیم خیبر پختونخوا نے صوبے مین غیرفعال سرکاری سکولوں کی نجکاری پر غور شروع کردیا ہے۔پہلے مرحلے میں غیر فعال گرلز اور بوائز پرائمری سکولوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلانے کا تجربہ کیا جائے گا۔ محکمہ تعلیم کا موقف ہے کہ پرائمری سے لے کر میٹرک تک سرکاری سکولوں کے ہرطالب علم پرقومی خزانے سے ماہانہ دس ہزار روپے خرچ ہوتےہیں اس کے باوجود سرکاری سکولوں کی کارکردگی اور معیاربہتر ہونے کے بجائے گرتا جارہا ہے۔ اس کے مقابلے میں پرائیویٹ سکولوں کا معیار روزبروز بہتری کی طرف گامزن ہوتا ہے۔حالانکہ پرائیویٹ پرائمری سکولوں میں ایک طالب علم پر ماہانہ تین ہزار سے پانچ ہزار روپے جبکہ مڈل اور میٹرک تک کی لیول پر پانچ ہزار سے دس ہزار روپے ماہانہ خرچہ آتا ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت اگر پرائمری کے بچوں کی فیس حکومت ادا کرے تو اسے دس ہزار کے بجائے تین چار ہزار روپے خرچ کرنے ہوتے ہین۔ صوبائی حکومت نے صحت کے شعبے میں بھی غیر فعال بی ایچ یوز اور آر ایچ سیز کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلانے کا تجربہ کیا ہے جو کافی کامیاب رہا ہے۔ اگرچہ ان ہسپتالوں میں معائنےاور ٹیسٹوں کی فیس زیادہ لی جاتی ہے لیکن علاج تسلی بخش ہونے کی وجہ سے لوگ ان ہسپتالوں پر اعتماد کرنے لگے ہیں اب یہ ہسپتال اپنے اخراجات خود برداشت کرنے کے قابل ہوچکے ہیں۔ اسی تجربے کی بنیاد پر حکومت نے غیر فعال سکولوں کو بھی نجی شعبے کے اشتراک سے چلانے کامنصوبہ بنایاہے۔ مختلف حلقوں کی طرف سے اس منصوبے کی مخالفت بھی خارج ازامکان نہیں۔لیکن قومی مفاد کو سامنے رکھ کر سوچا جائے تو یہ تجربہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ والدین اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دلانا چاہتے ہیں تاکہ وہ عملی زندگی میں کامیاب انسان بن سکیں اور اپنے والدین کا سہارا اور خاندانوں کے کفیل بنیں۔بدقسمتی سے سرکاری سکولوں سے میٹرک پاس کرنے والے بچوں کو نہ کالجوں میں داخلہ ملتا ہے نہ ہی وہ پیشہ ورانہ شعبوں کے کوالیفائنگ امتحانات پاس کرسکتے ہیں۔ان کی اکثریت دیہاڑی کی مزدوری یا ڈرائیونگ، پلمبر، پائپ فٹر، الیکٹریشن ، مستری اور ترکھان کا کام سیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں ان بچوں میں احساس کمتری پیدا ہوتا ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ سرکاری سکولوں کے 95فیصد اساتذہ اور محکمہ تعلیم کے تمام افسران اور اہلکار بھی اپنے بچوں کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔جب سرکاری سکولوں کے اساتذہ کو ہی اپنے سکولوں کے ماحول، نصاب تعلیم، طریقہ تدریس اور معیار پربھروسہ نہیں تو عام لوگوں سرکاری تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو پڑھانے کے لئے کیسے قائل کرسکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومت نے حالیہ داخلہ مہم کے دوران سکول سے باہر بچوں کو داخلہ دینے کا جو ہدف مقرر کیا تھا اس کا 50فیصد بھی حاصل نہیں ہوسکا۔ مقررہ وقت تک صرف تیس سے چالیس فیصد بچوں نے داخلہ لیا اور ہدف پورا کرنے کے لئے حکومت کو معیاد میں توسیع کا فیصلہ کرنا پڑا۔مگر ہدف پھر بھی حاصل نہیں ہوسکا۔سرکاری سکولوں کے بچوں کو کتابین، کاپیاں، بستے اور نقد جیب خرچ دینے کے باوجود جب معیار بہتر نہیں ہورہا تو اس نظام کو آنکھیں بند کرکے جاری رکھنا قومی مفاد کے منافی ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت سکول چلانے کا تجربہ ضرور کرنا چاہئِے اگر پرائمری سطح پر یہ تجربہ کامیاب ہوگیا تو اسے مڈل، ہائی اور ہائیر سکینڈری تک توسیع دی جاسکتی ہے مقصد تعلیم کا معیار بہتر بنانا اور قوم کے مستقبل کے معماروں کو آنے والے دور کے چیلنجوں سے نمٹنے کے قابل بنانا ہے۔ اور کسی نیک مقصد کے لئے چھوٹی سی قربانی بھی دینی پڑے تو اس سے گریز نہیں کرنا چاہئے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔