ثقافتی احیاء کی قابل تقلید کاوش.. محمد شریف شکیب

شاعر مشرق نے کہا تھا کہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔دنیا میں لسانی، نسلی، مسلکی،رنگت اورعقیدے کی بنیاد پرسینکڑوں قومیں آباد ہیں۔ ہر قوم اپنی مخصوص بودوباش، رہن سہن،رسومات، رواجات، تہواروں اور زبان و ادب کی بنیاد پر دوسری اقوام سے مختلف ہوتی ہے۔یہی انفرادیت قوموں کی پہچان ہوتی ہے۔کوہ ہمالیہ اور ہندوکش کے دامن میں بسنے والی کہو قوم کی تاریخ، تہذیب و تمدن، زبان، ثقافت اور رسم ورواج بھی صوبے کی دیگر اقوام سے یکسر مختلف ، دلچسپ اور قدیم ہیں۔صدیوں پر محیط اس ثقافتی ورثے کو بیرونی ثقافتی یلغار سے بچانے اور اپنی انفرادیت برقرار رکھنے کے لئے نجی شعبے میں قائم ادارے اور شخصیات قابل قدر کام کر رہے ہیں اسی سلسلے میں ایک تقریب چترال میں ہوئی جس میں چترال کے ادبی اور ثقافتی ورثے میں خواتین کے کردار کو اجاگر کیا گیا۔ تقریب سے خطاب میں دانشوروں اور اہل قلم، زبان و ادب کے ماہرین نے انکشاف کیا کہ صدیوں سے مقبول لوگ گیت لواہ اور اشورجان خواتین کی تخلیق کردہ ہیں۔اس موقع پر لوک گیت لواہ کو ویژول کے ساتھ ریکارڈ کرکے محفوظ کیا گیا۔مقررین کا کہنا تھا کہ ہمارے لوک گیت، کہانیاں، رسومات ہماری پہچان ہیں ان کے ذریعے پیار، محبت، رواداری، ایثار،باہمی تعاون اور قربانی کا درس دیا گیا ہے۔انہی خصوصیات کی وجہ سے چترالی قوم کو نہ صرف صوبے، ملک بلکہ بیرون ملک بھی قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.مقررین کا کہنا تھا کہ آنے والے سالوں اور عشروں میں ہمارے پہاڑوں، برف پوش چوٹیوں، جنگلات، جنگلی حیات اورمعدنیات سے زیادہ اہمیت ہماری ثقافت کی ہوگی۔اگر ہم نے اپنی ثقافت کو زندہ رکھا تو لوگ پہلے اسے دیکھنے آئیں گےاسی بہانے وہ ہمارے خوبصورت سیاحتی مقامات بھی دیکھیں گے۔ چترال کے ثقافتی ورثے پر ظفر اللہ پرواز نے کہوار زبان کا پہلا ناول بھی لکھا ہےجسے گلگت میں کہوار بولنے والوں نے آڈیو کی شکل میں قسط وار سوشل میڈیا پر جاری کیا تھا۔ اس کتاب میں کہوار زبان کے سینکڑوں ایسے الفاظ کو دوبارہ زندہ کیا گیا جو بھلائے جاچکےتھے اور درجنوں ایسی رسومات کی تفصیل بیان کی ہیں جو آج متروک ہوچکی ہیں۔اب انجمن ترقی کہوار اور اے کے آر ایس پی نے کہوار زبان و ادب اور ثقافتی ورثے کی احیاء کے لئے جو قدم اٹھایا ہے وہ ہر لحاظ سے قابل تحسین اور قابل تقلید ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ چترال کے تعلیم یافتہ طبقے کو اپنی زبان ، ادب اور ثقافت سے گہرا لگاو ہے۔اگر یہ کاوشیں جاری رہیں تو کہو قوم کی صدیوں پرانی ثقافت دوبارہ زندہ ہوسکتی ہے۔ ثقافتی تبدیلیوں کے موجودہ دور میں ہم ترقی یافتہ اقوام کے طرز زندگی کی نقل کرنا اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں جو احساس کمتری کی علامت ہے۔ اردو زبان کا مشہور محاورہ ہے کہ کوا چلے ہنس کی چال تو اپنی چال بھی بھول گیا۔یہی محاورہ موجودہ معاشرے پر صادق آتا ہے۔ کہو ادب و ثقافت پورے خطے میں سب سے بہترین ثقافتی ورثہ ہے۔ یہی وجہ ہےکہ ثقافتی یلغار سے کہو ثقافت زیادہ متاثر نہیں ہوا۔کہوار زبان سے محبت کرنے والوں کی اپنے تشخص کے لئے کوششوں کو دیکھتے ہوئےیہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ کہو ادب و ثقافت کا مستقبل نہایت تابناک اور شاندار ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔