آئینی تقاضے پورے کرنے کی ضرورت۔۔۔محمد شریف شکیب

خیبر پختونخوا کے نگران وزیر اعلی محمد اعظم خان نے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے نام ایک طویل خط میں صوبے کی موجودہ مخدوش صورتحال کا ذکر کرتے ہوءے آئین پاکستان میں درج بعض اہم معاملات کی طرف وفاقی حکومت کی توجہ مبذول کرنے کی کوشش کی ہے۔ وزیراعلی کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخواکئی عشروں سے دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔جغرافیائی پوزیشن اور ناموافق حالات کی وجہ سے یہ صوبہ ملک کے دوسرے حصوں سے پیچھے رہا ہے۔ صوبے کو درپیش مسائل حل کرنے اور اسے ملک کے دوسرے حصوں کے برابر لانے کے لئے آئین میں درج میکنزم پر عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔خیبر پختونخوا کو آئین میں درج اس کے مالی حقوق مل جائیں تو صوبے کو موجودہ بحرانوں سے نکالا جاسکتا ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ سابقہ قبائلی اضلاع کی خیبر پختونخواہ میں انضمام کے بعد ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں بھی تصحیح کی ضرورت ہے۔ اس وقت کی آبادی کے تناسب سے این ایف سی میں صوبے کاحصہ 19.6 فیصد بنتا ہے۔جبکہ صوبے کو این ایف سی کا صرف 14.6 فیصد مل رہا ہے۔رواں مالی سال کے لئے صوبے کو 262 ارب روپے ملنے چاہئیے تھے تاحال صوبے کے لئے صرف 123 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔اس طرح صوبے کو 139 ارب روپے خسارے کا سامنا ہے۔اے جی این قاضی کمیٹی کے طریقہ کار کے تحت پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں 2016 سے اب تک صوبے کے 1500 ارب روپے واجب الادا ہیں۔سال 2014 میں اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی نے بجلی پیدا کرنے کے لئے صوبے کو 100 ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط بھی ہو چکے ہیں۔خیبر پختونخوا اس وقت صنعتی شعبے میں صرف 40 ایم ایم سی ایف ڈی گیس استعمال کر رہا ہے۔اکنامک کوآرڈینیشن کونسل خیبر پختونخوا کے صنعتی شعبے کے لیے 100 ایم ایم سی ایف ڈی گیس مختص کرے۔پیڈو اس وقت 165 میگاواٹ پن بجلی پیدا کر رہا ہے، اس بجلی کو صوبے کے صنعتی شعبے کو فراہم کرکے معاشی سرگرمیاں پیدا کی جاسکتی ہیں۔آئین میں درج نکات پر عملدرآمد میں مزید تاخیر صوبے اور خصوصا ضم شدہ قبائلی اضلاع میں امن وامان کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتاہے۔اس وقت وفاق اور صوبے میں نگران حکومتیں قائم ہیں جو پالیسی کے لحاظ سے ایک پیج پر ہیں ماضی میں بھی وفاق اور خیبر پختونخوا میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود صوبے کا اس کے آئینی حقوق نہیں ملے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی حکومتوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ کئی بار صوبائی اسمبلی کے ممبران سیاسی وابستگی کو بالائے طاق رکھ کر جرگہ کی صورت میں وفاق کے پاس گئے اور انہیں آئینی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی کوشش کی مگر یہ ساری کاوشیں صدا بہ صحرا ثابت ہوئیں۔خیبر پختونخوا میں پانی سےپیدا ہونے والی بجلی سے پنجاب اور سندھ کی صنعتیں چل رہی ہیں جو بجلی ہم دو روپے یونٹ پیدا کرکے قومی گرڈ میں شامل کررہے ہیں وہی بجلی ہمیں 35روپے یونٹ مل رہی ہے اور بجلی کی قیمت سے دوگنے ٹیکس بھی دینے پڑ رہے ہیں۔بجلی کے خالص منافع کے اربوں کے بقایاجات کئی عشروں سے صوبے کو نہیں دیئے گئے۔اٹھارویں ترمیم کے نتیجے میں وفاق کےزیرانتظام سات قبائلی ایجنسیوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کردیا گیا اور طے پایا کہ تمام صوبے این ایف سی میں ملنے والے اپنے حصے کا تین فیصد دس سالوں تک خیبر پختونخوا کو دیں گے تاکہ پسماندہ قبائلی اضلاع کو دیگر علاقوں کے برابر لایاجاسکے۔ مگر خیبر پختونخوا کے سوا کسی بھی صوبے نےاین ایف سی میں ملنے والی رقم کی ایک پائی صوبے کو نہیں دی۔ نگران وزیراعلی نے خط لکھ کر وفاق کی توجہ اس کی آئینی ذمہ داریوں کی طرف مبذول کرنے کی کوشش کی ہے اور صوبےکے ساڑھے چار کروڑ عوام اپنے حقوق کے حوالے سے سیاسی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھ کر متحد اور متفق ہیں۔انوار الحق کاکڑ خود ایک چھوٹے صوبے سے تعلق رکھتے ہیں امید ہے کہ وہ خیبر پختونخوا کو درپیش مسائل کا ادراک بھی رکھتے ہیں اور ان کے حل کےلئے عملی اقدامات بھی کریں گے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔