ضمیر کی آواز  تحریر : اقبال حیات اف برغذی

انسانیت ان معاشرتی اقدار کا نام ہے جن کی پاسداری ہمارے عظیم پیغمبر حضرت محمد  ﷺنے کی ہے۔ جامع انسانی صفات کا حامل یہ نام زندگی کی لطافت،حلاوت اور لذت کا ضامن ہوتا ہے۔ کیونکہ انسانیت کی پاسداری میں اللہ رب العزت کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ اور یوں کائنات کے رنگ وروپ میں نکھار پیدا ہونا یقینی امر ہےبنی نوع انسانوں کے باہمی ادب احترام ،رواداری،داد راسی،خلوص اور پیار ومحبت  کے اوصاف کی مہک سے زندگی معطر ہوتی ہے ۔کیونکہ انسانیت لفظ سے پیوستہ اوصاف کو گلستان حیات کے پھولوں کی حیثیت حاصل ہے۔
انسانی تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو جب تک انسانیت کا سورج معاشرتی زندگی کے آسمان پر چمکتا رہا  تو زندگی کے لطف وسرور سے ہر کوئی مستفید تھا۔ اور بھائی چارے کی دنیا آباد تھی۔ اور جب انسانیت کے اوصاف حمیدہ کو چھوڑ کر خود غرضی،مفاد پرستی،انانیت،اور کبروغرور جیسے انسانیت دشمن کردار کا گرہن لگنا شروع ہوا تو زندگی سے بیزاری کے مہیب سائے پھیلنے لگے۔ اور انسانی زندگی کا ہر رنگ وروپ سکون قلب اور سرور ولذت سے محروم ہوتی گئی۔
معاشرتی زندگی کے اس بگاڑ میں سب سے زیادہ کردار ان لوگوں کا ہے ۔جن کے ہاتھ میں زمام اقتدار ہوتا ہے۔ ان کے اندر پیدا ہونے والی ذاتی لالچ اور خود غرضی کے جراثیم اس وباء کے پھیلنے کے  محرک ہوئے ۔کسی سرکاری ذمہ دار عہدے پر فائز افراد انسانی اوصاف سے خالی اور ذاتی مفادات کے تصورات سے متمول ہوتے ہیں ۔کسی کی داد رسی ،انصاف کی فراہمی اور سہارا بننے کا تصور ایک خواب کی صورت  میں نظر آتا ہے۔ کہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نام سے موسوم خلیفتہ المسلمین کا بازار سے گزرتے ہوئے کسی شخص کی طرف سے مزدور تصور کرکے اپنا سامان اٹھانے کے لئے بلایا جاتا ہے۔ اور وہ برضاورعبت ان کے سامان پیٹھ پر اٹھائے جاتا ہے۔ سامنے آنے والے ایک شخص نے انہیں پہچان کہاامیر المونین یہ سامان مجھے دیدیں میں اٹھاوں گا جس پر سامان کا مالک چونک جاتا ہے اور شرمندہ ہوکر ان سے معذرت کا خواستگار ہوتا ہے اور امیر المومنین خندہ پیشانی سے فرماتے ہیں کہ یہ توکوئی عیب کی بات نہیں جس کے لئے معذرت خواہی کی جائے ۔یہ تو اخلاقی فرض ہے جسے ہر کسی کو نبھانا ہے۔
آج اس قسم کے تذکرے کو “تم کس دنیا کی بات کرتے ہو” لفظ سے پیوست کیا جاتا ہے۔ اور کسی ذمہ دار عہدے پر فائز انسان سے خوش طبعی کے ساتھ مغروضات سننے کی توقع کرنا حماقت کے مترادف معلوم ہوتا ہے۔ اور اگر کہیں  یہ صفت نظر آجائے۔ تو حیرت ہوتی ہے۔ اور اس کا بار بار وتذکرہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔ انسانیت لفظ  کی وساطت سے ان چند سطور کو زیر قلم لانے کا مقصدبھی اس قسم کی کیفیت کا حامل ہے۔ کسی ذاتی کام کے سلسلے میں پہلی بار ڈی۔ایچ ۔کیو ہسپتال کے ایم ۔ایس قابل احترام شہزادہ ڈاکٹر حیدر الملک کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا ۔ایک معزز خاندان سے وابستگی اور بڑے ادارے کے سربراہ ہونے کے باوجود آپ کی شرافت،اخلاق اور حسن سلوک کو دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی  کہ اللہ پاک کی دنیا میں آج بھی ہمہ صفت کردار کے حامل افراد موجود ہیں۔ آپ کے دفتر کی زیب وذہنیت کے ساتھ ساتھ پورے ہسپتال کی دل لبھائی اور ان کے ماتحت عملے کا مریضوں کی تیماداری کے لئے مستعد رہناہر لحاظ سے قابل تحسین ہے۔
جن کے لئے موصوف کے کردار کو سراہنے میں بخل کرنا یقیناً بے ضمیری ہوگی۔ دل میں حسرت پیدا ہوتی ہےکہ کاش یہ اوصاف تمام قومی اداروں کی سربراہی پر مامور حضرات میں بھی پیدا ہوجائیں تو ہماری معاشرتی زندگی میں نکھار پیدا ہونا یقینی امر ہے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔