ہوا میں تیر چلانا… تحریر:اقبال حیات اف برغذی
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید نےاپنے چترال کے پہلے دورے سے واپسی پر ارباب نیاز سٹیڈیم پشاور میں پارٹی کے کارکنوں کی طرف سے اپنے اعزاز میں دی گئی چائے پارٹی کے موقعہ پر تقریرکرتے ہوئے فرمایاکہ آج میں اپنے وطن عزیز کے ایک ایسے خوبصورت علاقے کا دورہ کرکے آرہا ہوں۔ جہاں لوگوں کو پہننے کےلئے صحیح معنوں میں کپڑے میسر نہیں۔پاوں میں جوتے نہیں ،کھانے کےلئے روٹی اور چلنے کے لئے راستے نہیں پھربھی ان کے چہرے پھول کی طرح کھلے ہوئے ہیں اور دل کی گہرائیوں سے پاکستان زندہ باد کہتے ہیں۔
یہ الفاظ مستوج روڈ پرسفر کے دوران یاد آتے ہیں۔گزشتہ دو سالوں سے مسافروں کو مٹی کے دھول سے واسطہ ہے گاڑی سے اترتے وقت جھٹکوں سے چور بدن کے دردکے احساس کے ساتھ کپڑوں کوجھاڑتے اور منہ کو رومال سے صاف کرتے ہوئے” اُف اللہ” کہتے ہوئے صرف اپنے رب سے شکوہ کرنے کے علاوہ کوئی اور لفظ زبان سے نہیں نکالتے ۔کام کی نوعیت کو دیکھ کر ایک مذاق کا گمان ہوتا ہے۔ ایک دن چند کھدال لےکر ایک جگہ کٹائی کی جاتی ہے اور دوسرے دن یہ منظر کہیں اور نظر آتا ہے ۔ باقاعدہ ایک ترتیب کے تحت کام کی انجام دہی کے آثار نظر نہیں آتے ۔اس سے زیادہ قابل حیرت بات بلاوجہ اس سڑک کے وسط سے گزرنے والی ترکول کی کٹائی ہے۔ نہ جانے اس میں کونسا فلسفہ کارفرما تھا بچوں کے کھیل کے رنگ میں زیر تعمیر اس سڑک کے مسافروں پر بیتنے والے حالات پر رحم کھانے والا کوئی نہیں بدقسمتی سے سرزمین چترال فعال لیڈر شپ سے محروم ہے اور خود ساختہ لیڈر اپنی دنیاسنوارنے میں مگن رہتے ہیں اور انہیں علاقے کے عوام کے دکھ درد کا احساس تک نہیں۔یوں ایسے حالات میں عوام کو نہ پائے رفتن اور نہ جانے گفتن کی کیفیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔کیونکہ فریاد کریں تو کس سے شنوائی کی امید نہیں۔
اس سفر کے دکھ سے وابستگی کی بنیاد پر یہ چند الفاظ قلم اور کاغذ کی وساطت سے ہوا میں تیر چلانے کے مصداق ارباب اختیار کے گوش گزار کرنے کی جسارت کی جاتی ہے کہ شاید کسی کے دل میں اتر جائے یہ فریاد۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں