تازہ ترین

وزیرِاعظم کے اعلانات خوش آئند مگر قواعد کے مطابق فنڈنگ و منظوری ناگزیر، وقاص احمد ایڈووکیٹ

چترال (چترال ایکسپریس ) معروف قانون دان وقاص احمد ایڈووکیٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وزیرِاعظم پاکستان میاں شہباز شریف کا حالیہ دورۂ چترال اور ترقیاتی اعلانات عوام کے لیے یقیناً باعثِ امید ہیں، تاہم ان منصوبوں کی قانونی حیثیت، مالیاتی منظوری اور بجٹ شمولیت کے پہلو کو واضح کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ عوام کو غلط فہمی کا شکار نہ کیا جائے۔

وقاص احمد ایڈووکیٹ نے کہا کہ وزیرِاعظم نے گزشتہ سال دسمبر میں دانش سکول اور جدید ہسپتال کے قیام کا اعلان کیا تھا، مگر وفاقی بجٹ 2025-26 کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ چترال میں ان منصوبوں کے لیے کوئی واضح رقم مختص نہیں کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ایسے منصوبے بغیر PC-1 کی تیاری، PDWP/CDWP منظوری اور ECNEC سے توثیق کے صرف اعلان کی بنیاد پر شروع نہیں کیے جا سکتے۔
ان منصوبوں کی متوقع لاگت تقریباً 80 ارب روپے ہے، لہٰذا ان کے لیے باقاعدہ فنانشل فریم ورک، پی سی-ون اور فنڈ ریلیز پلان کا ہونا قانونی تقاضا ہے۔

وقاص احمد ایڈووکیٹ کے مطابق، وزیرِاعظم کا چترال شندور روڈ کو دسمبر 2026 تک مکمل کرنے کا اعلان عملی طور پر تبھی ممکن ہے جب بجٹ میں مکمل رقم فراہم کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ 22 ارب روپے مالیت کے اس منصوبے کے لیے رواں مالی سال کے بجٹ میں صرف ایک ارب 50 کروڑ روپے مختص ہیں، جب کہ بقیہ 18 ارب سے زائد رقم کے بغیر منصوبہ قانونی طور پر مکمل نہیں ہو سکتا۔
وزیرِاعظم کی ہدایت انتظامی سطح پر اہم ضرور ہے، مگر آئینی اور مالیاتی قوانین کے مطابق، بجٹ منظوری یا PSDP/ADP میں شامل کیے بغیر کسی منصوبے پر کام کا آغاز ممکن نہیں۔

اسی طرح کالاش ویلی روڈ کے حوالے سے وقاص احمد ایڈووکیٹ نے بتایا کہ اس سال صوبائی بجٹ میں صرف 70 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، جب کہ منصوبے کی کل لاگت تقریباً 6 ارب روپے ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت مئی 2026 تک مزید 5 ارب روپے ریلیز کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے ADP یا بجٹ میں ترمیم اور باقاعدہ منظوری ضروری ہوگی، بصورتِ دیگر یہ اقدام مالیاتی ضوابط کی خلاف ورزی تصور ہوگا۔

وقاص احمد ایڈووکیٹ نے گیس پلانٹ کے اعلان پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اب تک اس منصوبے کے لیے کوئی PC-1 یا ٹینڈر دستاویز عوامی سطح پر دستیاب نہیں۔
انہوں نے کہا کہ توانائی کے کسی بڑے منصوبے پر PC-1، منظوری اور KPPRA قوانین کے مطابق شفاف ٹینڈرنگ کے بغیر عملی کام کا آغاز نہیں کیا جا سکتا۔
ایسے اقدامات بعد میں آڈٹ اعتراضات اور قانونی پیچیدگیوں کا سبب بن سکتے ہیں۔

وقاص احمد ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ اپر چترال کے لیے یونیورسٹی کے قیام کا اعلان بھی کیا گیا ہے، جو بلاشبہ ایک مثبت اور خوش آئند قدم ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اب تک اس منصوبے کے لیے نہ تو کوئی PC-1 تیار ہوا ہے اور نہ ہی وفاقی یا صوبائی بجٹ میں اس مقصد کے لیے کوئی رقم مختص کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی جیسے بڑے منصوبے کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کی منظوری، زمین کے انتخاب، فزیبلٹی اسٹڈی، اور فنڈ ریلیز پلان کا ہونا لازمی ہے۔
اگر یہ مراحل مکمل نہ کیے گئے تو یہ اعلان محض سیاسی نوعیت کا سمجھا جائے گا، جس کے عملی نتائج عوام تک نہیں پہنچیں گے۔

وقاص احمد ایڈووکیٹ نے کہا کہ چترال کے عوام کو خوش فہمی میں رکھنے کے بجائے بہتر ہے کہ حکومت ان منصوبوں کے فنی، مالیاتی اور قانونی مراحل سے آگاہ کرے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ متعلقہ ادارے دانش سکول، ہسپتال، شندور روڈ، کالاش ویلی روڈ، گیس پلانٹ اور اپر چترال یونیورسٹی کے PC-1، ECNEC/PDWP منظوری اور بجٹ مختص رقم کی تفصیلات عوام کے سامنے لائیں تاکہ ترقیاتی عمل میں شفافیت اور اعتماد پیدا ہو۔

آخر میں وقاص احمد ایڈووکیٹ نے کہا کہ:“ترقیاتی منصوبے نعروں سے نہیں، قانونی عمل اور بجٹ شفافیت سے پایۂ تکمیل کو پہنچتے ہیں۔ وزیرِاعظم کے اعلانات کی قدر کرتے ہوئے ہم یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ تمام منصوبے قواعدِ قانون اور آئینی فریم ورک کے مطابق مکمل کیے جائیں گے، تاکہ چترال کے عوام حقیقی ترقی کے ثمرات سے مستفید ہو سکیں۔”

زر الذهاب إلى الأعلى
Ads Blocker Image Powered by Code Help Pro

Ads Blocker Detected!!!

We have detected that you are using extensions to block ads. Please support us by disabling these ads blocker.

Powered By
100% Free SEO Tools - Tool Kits PRO