تلخ و شیریں۔. ۔بمبوریت یاترا اور سیاحوں سے چند باتیں ۔.. نثار احمد…

زہنی نشاط ، طبیعت کی تازگی اور فکر و خیال میں بشاشت کے واسطے تفریح کے لیے کسی پرفضا مقام پر جانا بہت ضروری ہے اس سے دماغ و بدن کا رشتہ بھی مضمحل ہونے سے محفوظ رہتا ہے اور فکری پریشانیوں کا بھی قلع قمع ہوتا ہے۔ ایک ہی دائرے میں ڈیلی روٹین کی سرگرمیوں کےگرد گھومتے رہنے سے نہ صرف دماغ کے کام کرنے کی کارکردگی روبہ زوال کی ہوتی ہے بلکہ بدنی صحت بھی متاثر ہوتی ہے ۔
گزشتہ کل جمعے کی نماز کے بعد استراحت کے لیے چارپائی پر طبیعت سے دراز ہوا تھا کہ شاہی مسجد کے خطیب مولانا خلیق الزمان کاکاخیل صاحب کا فون آیا۔ فون کی گھنٹی نے گویا نیند کا ستیاناس کر دیا حالانکہ ارادہ بال بچوں کی غیر موجودگی کو “غنیمت” جانتے ہوئے عصر تک گھوڑے بیچ کر سونے کا تھا۔
بہرکیف خطیب صاحب مدظلہ نے فون میں دارالعلوم کراچی کے زمانے کے میرے ساتھی مولانا مظفر حیات کی گاڑی میں موجودگی کا مژدہ سناتے ہوئے حکم دیا کہ ہم بیس منٹ کے اندر اندر ایون پہنچ رہے ہیں تم بھی بازار پہنچ جاؤ تمہیں ساتھ لیتے ہوئے بمبوریت جانا ہے۔ چترالی میں کہتے ہیں کانو کیا مݰکیران غیچ ۔ اگر گرمی کے ستائے شخص کو بمبوریت یاترے کی دعوت ملے تو پھر موقع ضائع کرنے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے؟۔سو ہڑبڑا کر اٹھ گیا اور وقت ضائع کیے بغیر فوراً سے پیشتر بازار پہنچ ہو گیا ۔
بمبوریت کی طرف سفر کا آغاز کرنے کے لیے جب گاڑی میں سوار ہوا تو یہ دیکھ کر خوشی کی انتہا نہ رہی کہ شرکاء سفر میں مزار ِ قائد کے فاتحہ خوان قاری شمس الدین ، شاہی مسجد کے امام مولانا حذیفہ خلیق اور میرے دارالعلوم کے زمانے کے دوست مولانا مظفر حیات کے علاوہ ہردلعزیز باغ و بہار شخصیت مولانا فیض محمد مقصود المعروف مہتم م صاحب بھی ہیں۔
مہتم م صاحب کی معیت میں سفر کتنا پرلطف ہوتا ہے اس کا تجربہ پچھلے ایک دو اسفار میں کر چکا تھا۔ اس لیے اظہار ِ مسرت غلط نہیں تھا ۔ دراصل مہتمم صاحب سفر کے لیے بہترین ساتھی ہیں ۔ موصوف ہاتھ کے ہی کھلے نہیں ، دل کے بھی بڑے ہیں۔ بڑے پُرگوشت موٹے بدن پر چار جیبوں والی کھلی ڈھلی واسکٹ پہننے والے مہتمم صاحب خرچ کے موقعے پر واسکٹ کی جس جیب میں بھی ہاتھ ڈالتے ہیں وہاں سے بفضل ِ خدا پیسے ہی برآمد ہوتے ہیں ۔ مجھے یقین ہے اگر ان کی واسکٹ میں پانچویں جیب ہوتی تو اس سے بھی پیسے ہی نکلتے۔ واقعات لطیفوں کی شکل میں اتنی کثرت کے ساتھ سناتے ہیں کہ گمان ہوتا ہے موصوف کا کل مشغلہء زندگی بس یہی ہو۔ لیکن اکتفا لطائف سنانے پر ہی نہیں کرتے، ساتھ ساتھ کثائف بھی بھگتاتے ہیں ۔ جس طرح پارلیمان میں کی جانے گفتگو کا قابلِ اعتراض حصّہ بحکمِ اسپیکر ایکسپنچ کر دیا جاتا ہے اس طرح موصوف کے قہقہہ خیز گفتگو کا بھی معتد بہ حصہ ہمیشہ ناقابلِ روایت ہی رہتا ہے۔
بمبوریت کے بتریک نامی گاؤں کے فرنٹیر ہوٹل میں ہمارا پڑاؤ تھا ۔ فرنٹیئر ہوٹل ماشاءاللہ بمبوریت کے چند پرانے اور نامی گرامی ہوٹلز میں سے ایک ہے ۔ گلیشئرز سے پھوٹنے والا پرشور نالہ ہوٹل کے جنوبی حصے کی نشیبی دیوار کو چُھوتا ہوا آنکھوں کے سامنے سے گزرتا ہے۔ درخت ، نیچے گھاس اور سامنے بہنے والا صاف شفاف نالہ ۔۔ بڑا ہی دلربا منظر ہوتا ہے ۔ اس سے زیادہ اس کی تعریف اور کیا ہو سکتی ہے کہ جولائی کی راتوں میں بھی یہاں پنکھے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ شاید ضرورت کے اسی اندفاع کی وجہ سے یہاں کمروں کی چھتوں کے نچلے حصے میں پنکھے نہیں لگے ہوئے ہیں۔
اس بار خلاف توقع ہمیں بمبوریت میں سیاحوں کی گہما گہمی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ راستے میں گلیکسی ہوٹل کے منیجر ہردلعزیز سیاسی شخصیت نظار ولی شاہ بھی ملے تھے ان سے اس بابت ضرور گپ شپ لگاتے لیکن تنگی ء وقت نے اس کا موقع نہیں دیا ۔سیاحوں کی کمی کے پیچھے سیلابی صورت حال، ہوش رُبا مہنگائی اور سڑکوں کی مخدوش حالت جیسی تگڑی وجوہات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تاہم اس کی ایک بڑی وجہ ہماری نظر میں غلط سوشل میڈیائی پبلسٹی بھی ہے ۔
درحقیقت میڈیا پبلسٹی کے زیر اثر سیاحوں کی ایک بڑی تعداد عام طور پر بمبوریت کی ایک ایسی “من پسند تصویر” زہن میں بسا کر بمبوریت پہنچتی ہے جو کسی طور پر درست نہیں ہوتی ۔ جب سیاح یہاں پہنچ کر دیکھتے ہیں کہ ایسا ویسا کچھ نہیں ہے تو اگلے سال کے لیے نہ آنے کی قسمیں کھاتے ہوئے نکلتے ہیں۔ یبمبوریت کا قصد کر کے چترال آنے والوں سیاحوں کے لئے کشش کی چیزیں بس مندرجہ زیل چیزیں ہو سکتی ہیں ۔
بمبوریت میں کیلاشہ تہذیب ۔
بمبوریت میں انتہائی قدیمی کیلاشہ تہذیب وجود رکھتی ہے جو ہزاروں سال پرانی بھی ہے اور انتہائی منفرد بھی ۔ انفرادیت ان کی تہذیب و ثقافت سے ہی نہیں ، مذہبی عقائد اور سماجی رسومات سے بھی عیاں ہوتی ہے۔ قدامت ان کے لباس و پوشاک میں ہی نہیں ، ان کے روز مرہ کے معاملات میں بھی موجود ہے ۔ اگر بطورِ سیاح آپ منفرد تہذیب و ثقافت اور رسوم و رواج دیکھنا چاہیں تو بسم اللہ کیجئے اور بمبوریت پہنچیے اس کے علاوہ اگر آنکھوں میں کچھ اور سپنے لیے آ رہے ہیں تو خواری کے علاوہ کچھ بھی ہمدست نہیں ہو گا ۔
سہانا موسم اور دلفریب منظر ۔
جون جولائی اگست میں جہاں ملک کے بیشتر حصوں میں سورج انگارے برسا رہا ہوتا ہے وہاں آپ بمبوریت کے بالائی حصے میں کہیں بھی درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں پنکھے کے بغیر بیٹھ بھی سکتے ہیں اور لیٹ بھی سکتے ہیں۔ اگر آپ جھلسا دینے والی گرمی اور “شور آور” پنکھے کی گرم ہوا سے تنگ ہیں نیز مصنوعی کولنگ سسٹم مثلاً اے سی وغیرہ سے اکتائے ہوئے ہیں اور فطری ٹھنڈک کے متمنی ہیں تو بمبوریت کے ہوٹل مالکان آپ کو ویلکم کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں البتہ اتنی بات کا خیال رکھیں کہ انتخاب بمبوریت کے بالائی حصے میں کسی بھی مناسب ہوٹل کا کریں ۔
سیزن کے حساب سے مختلف پرذائقہ میوے۔
یہاں حسبِ سیزن مختلف رسیلے اور پر ذائقہ میوے مثلاً انگور سیب، ناشپاتی ، آڑو اخروٹ وغیرہ وغیرہ قسمہائے قسم کے پائے جاتے ہیں۔ البتہ ان تک رسائی کے لیے آپ کو بمبوریت میں “رسائی” ڈھونڈنی پڑے گی ۔
شور شرابے سے پاک ماحول یا قدرتی مناظر۔
بمبوریت پہنچنے کے بعد آپ قدرتی مناظر سے لطف اٹھا سکتے ہیں مثلاً اونچے فلک بوس پہاڑ پھر ان پہاڑوں پر دیار اور چیڑ وغیرہ کے درخت اور دو پہاڑوں کے بیچ میں بہنے والا پرشور نالہ ۔ اس نالے کا پانی بھی بالکل صاف شفاف ہوتا ہے بشرطیکہ موسم ٹھیک ہو۔ جس بہنے والی مائع چیز کو اہل کراچی منرل واٹر کہہ کر ڈیڑھ دو سو رائج الوقت کرنسی میں خرید کر پیتے ہیں اس سے کہیں زیادہ شفاف پانی یہاں کے باتھ رومز میں دستیاب ہوتا ہے بس دن برسات کے نہ ہوں۔ کیوں کہ موسم برسات میں اس کا پانی اپنی شفافیت برقرار نہیں رکھ پاتا۔
سو باتوں کی ایک بات یہ یاد رکھیں کہ اگر آپ کچی سڑکوں پر جھولتے ہوئے سفر کے عادی نہیں ہیں یا اپنی نازک مزاجی کی وجہ سے کھڈوں سے بھرپور کچی سڑکوں پر سفر کرنا نہیں چاہتے تو چترال خصوصاً بمبوریت کا سوچنا بھی نہیں ۔ کیونکہ یہاں جو پکی سڑک بھی آپ کے نصیب میں آئے اس میں بھی جابجا اس قدر کھڈے ہوں گے کہ احتیاط نہ کرنے کی صورت میں آپ گردوں کا مریض بن سکتے ہیں ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔